نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (Donald Trump’s) نے ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا لیکن اس سے پہلے ہی اپنے ہمسایہ ملک کینیڈا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کے آثار نمایاں کر دیے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں کینیڈا اور میکسیکو سے امریکا میں درآمد کی جانے والی مصنوعات پر 25 فیصد اضافی درآمدی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک دونوں ممالک اپنی سرحدوں پر غیر قانونی سرگرمیوں، جیسے غیر قانونی نقل و حرکت اور منشیات کی امریکا میں ترسیل، کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدامات امریکی معیشت کے تحفظ اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
کینیڈا کی حکومت نے ٹرمپ کے اس بیان پر فوری طور پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے فوری طور پر ایک ہنگامی ورچوئل اجلاس طلب کر لیا جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریک ہوں گے۔ اس اجلاس کا مقصد امریکی اقدامات پر کینیڈا کا ایک متفقہ اور مضبوط موقف تیار کرنا ہے۔
کینیڈا کی وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے بھی سخت بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے لیے کینیڈا سب سے بڑی اور اہم برآمدی منڈی ہے، جہاں کینیڈا تیل، بجلی، لکڑی، اور اہم معدنیات جیسے وسائل فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا اپنے تجارتی تعلقات کو تحفظ دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا اور کسی قسم کی اقتصادی بلیک میلنگ برداشت نہیں کی جائے گی۔
اس کے علاوہ کینیڈین کاروباری حلقوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ اضافی ٹیکس عائد ہوا تو دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر کی تجارتی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف کاروباروں کو نقصان ہوگا بلکہ عام لوگوں پر بھی اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔
دوسری جانب، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ (Donald Trump’s) کی یہ پالیسی ان کی "امریکا فرسٹ” حکمت عملی کا حصہ ہے، جو دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو ثانوی حیثیت دیتی ہے۔ تاہم، اس کے طویل المدتی اثرات امریکی معیشت کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔