اسلام آباد ہائی کورٹ کا تین حلقوں کے کیسز کی علیحدہ سماعت کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ (Islamabad High Court) میں قائم الیکشن ٹریبونل نے اسلام آباد کے 3 حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے الگ الگ دن مقرر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

سماعت کے دوران، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم عدالت کی مدد کریں گے

ٹریبونل نے کہا کہ ایک فریق کہہ رہا ہے کہ ان کے پاس فارم 45 موجود ہیں اور وہ جیتے ہوئے ہیں، جبکہ دوسرا بھی یہی دعویٰ کر رہا ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ سرٹیفائیڈ کاپیز بیانِ حلفی کے ساتھ آ جائیں تو دیکھ لیتے ہیں، اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو جیل جائے گا۔ ہم فارنزک کے لیے دستاویزات پاکستان یا بیرونِ ملک بھی بھیج سکتے ہیں۔

الیکشن ٹریبونل نے کہا کہ الیکشن سے متعلق مصدقہ کاپیاں مانگی گئی ہیں اور ساتھ بیانِ حلفی بھی، اگر کوئی غلط بیانی کرے گا تو نتائج بھگتے گا۔ یہ ہائی کورٹ ہے، سول کورٹ نہیں، یہاں ایسے نہیں چلے گا کہ جس طرح مرضی کوئی ریکارڈ دے اور چلا جائے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے نا اے 48 کے ریٹرننگ افسر کی طرف سے کون ہے، یہ سوال کیا۔

شعیب شاہین نے جواب دیا کہ ابھی تک کوئی ریٹرننگ افسر نہیں آیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے فیصلہ سنا دیا کہ نہ آنے والوں کے خلاف معاشرتی اور معاشرتی ادارے، ٹی وی، ریڈیو پر اشتہارات شروع کر دیں۔ ریٹرننگ افسر کو حتمی انتباہ دیا گیا ہے، اگر وہ اب بھی نہ آئیں تو ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا جائے گا۔ یہاں پر بیان ہو گا، قرآن پر حلف اور گواہی ہو گی ، خدا کو بھی تو انہوں نے جان دینی ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے کہا کہ ہم لوکل کمیشن قائم کریں گے جو سب دیکھے گا۔

الیکشن ٹریبونل نے سوال کیا کہ ہر فارم پر دستخط موجود ہیں تو پھر گڑبڑ کیسے ہوئی؟ یہاں سب کچھ واضح کریں۔ اصل دستاویزات سے بھی پتہ لگے کہ کیا ہوا، شواہد کیسے ریکارڈ ہوئے ہیں؟

انتخابی کمیشن کے وکیل نے بیان کیا کہ تمام امیدواروں کی موجودگی میں، یہ شواہد ریکارڈ ہوتے ہیں، اصل فارم 45 الیکشن کمیشن کے پریزائیڈنگ افسر کو دیا جاتا ہے۔

الیکشن ٹریبونل نے کہا کہ فارم 45 تو سب امیدواران کے پاس موجود ہیں، آپ حلف اٹھا کر بتائیں گے ناں کہ کس کا فارم 45 صحیح ہے اور کس کا غلط؟ جس نے غلط بیانی کی اس کے خلاف دفعہ 193 کے تحت کارروائی ہو گی۔

الیکشن ٹریبونل نے اظہارِ برہمی کی ہے جب جواب جمع نہ کرانے پر سوال اٹھایا گیا۔

ٹریبونل نے پوچھا کہ 18 دن دیے گئے تھے، ابھی تک جواب کیوں نہیں آیا؟

سردار تیمور اسلم نے بتایا کہ ابھی انہیں وکیل کرنا ہے، اور وہ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے کوشاہوں گے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ ہم آپ کی بات نہیں کر رہے، فریقِ مخالف کو جلدی جواب دینا چاہیے تھا۔ رجسٹرار آفس بتائے کہ الیکشن ٹریبونل کے نوٹس کب فریقین کو موصول ہوئے؟ اگر جواب جمع نہ کرایا تو اس کے اثرات وہ ہوں گے جو قانون میں درج ہیں۔

شعیب شاہین نے استدعا کی کہ ای ایم ایس سسٹم کا ریکارڈ الیکشن کمیشن نہیں دے رہا، وہ منگوایا جائے۔

الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم تھا، سروس نہیں تھی اس لیے فزیکلی رزلٹ جمع کرایا۔

بعداز الیکشن ٹریبونل نے تینوں حلقوں کے کیسز آئندہ ہفتے کے لئے الگ الگ دن مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔