نوجوان پاکستان کیوں چھوڑ رہے ہیں

سید ثاقب آمین چشتی

ملک کی خراب معاشی اور سیاسی صورتحال نے روزگار کے مواقع محدود کیے تو پڑھے لکھے نوجوانوں (young people) نے اپنے اچھے مستقبل کی تلاش میں پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا بیورو آف امیگرینٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں، تقریباً 225,000 پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، لیکن گزشتہ سال یہ تعداد تقریباً تین گنا بڑھ کر 765,000 ہو گئی۔2022 کی تعداد میں ۹۲ ہزار سے زائد گریجوئیٹ نے پاکستان کو خیر آباد کہا، 24 ہزار انجینیرز ، 18 ہزار ڈاکٹرز اور ہزاروں آئی ٹی ایکسپرٹس ، 6 ہزار 500 کے قریب اکاونٹنگ ، 2ہزار 500 زرعی ماہرین ، ۱۲۰۰ کمپیوٹر آپریٹر، ۱۶۰۰ نرسیں شامل ہیں ۔ ان میں سے کچھ مغرب جاتے ہیں، باقی مشرق وسطیٰ کے ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جاتے ہیں۔

اور یہ رجحان 2023 میں کم ہونے کے کوئی آثار نہیں دکھاتا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال کے پہلے چھ مہینوں میں تقریباً ۸ لاکھ افراد نے بیرونی ملک کام کے مواقع کی تلاش میں پاکستان چھوڑا۔ اس میں ۱ لاکھ اعلی تعلیم یافتہ، ۳۰ ہزار انتہائ ہنر مند افراد بھی شامل ہیں جو پاکستان کا اہم اثاثہ تھے-

سعودی عرب پاکستانیوں کے لیے پہلی منزل جہاں 2051515 اور متحدہ عرب امارات میں 121745 پاکستانیوں نے رہنے کا انتخاب کیا۔ عمان میں 34140 قطر 35637 بحرین 7441 اور ملائیشیا میں 16166 پاکستانیوں نے اپنا مسکن بنایا ۔
اس بڑے پیمانے پر اخراج کی بنیادی وجہ گرتی ہوئی معاشی صورتحال کے ساتھ بد ترین سیاسی انتقام ہے۔ لوگ خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوان بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ ملک میں ان کے لیے خاطر خواہ
مواقع نہیں ہیں، اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔روپے کی قدر میں گراوٹ نے زندگی مزید اجیرن کردی ہے اور لوگوں کا نظام پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔

کسی ملک کی ترقی کی رفتار اس کی فکری صلاحیت سے مضبوطی سے جڑی ہوتی ہے۔ ڈاکٹروں، انجینئروں، سائنسدانوں، پروفیسروں یا محققین کو کھو دینا ملک کی ترقی کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے- جو لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ اگر انہیں بنیادی سہولتیں اور مطلوبہ مواقع فراہم کیے جاتے تو یہ سب وطن کی خدمت کر رہے ہوتے۔

پاکستان کی 64 فیصد یعنی ۱۵ کڑوڑ ایسے مرد و خواتین پر مشتمل ہے جن کی عمر ۳۰ سے کم ہے، اور 29 فیصد پاکستانیوں کی عمریں 15 سے 29 سال کے درمیان ہیں۔ یعنی نوجوان آبادی(young people) ہونے کی بنیاد پر پاکستان کے پاس بہترین potential ہے۔ لیکن حکومتوں کی نااہلی کہیے، اسٹیبلشمنٹ کی بے جا طاقت کا حصول اور مختلف اداروں میں بے جا مداخلت کہیے،جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومت نہ تو اپنی معاشی پالیسی پر عمل کر سکتی ہے اور نہ ہی ملک میں استحکام آتا ہے جو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان اس وقت بد ترین Brain drain کا شکار ہے۔ ہر شخص چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ مزدور ملک سے باہر جانے کی خواہش اور تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ روزانہ تقریباً ۴۰ ہزار لوگ پاسپورٹ کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔ باہر جانے والوں کی تعداد بیورو آف امیگرینٹ کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انکا ڈیٹا صرف ورک ویزا کا احاطہ کرتا ہے۔گوگل کا ٹاپ سرچ پاکستان میں ویزے کا ہے۔ ہر کوئی پاکستان سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے اور خاص طور پر نوجوان طریقہ قانونی ہو یا غیر قانونی بس باہر جانا ہے۔

باہر جانے کے شوق میں بہت سے پاکستانی نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھتے ہیں، جیلوں میں رہتے ہیں، اپنی ساری جمع پونجی لٹانے کے بعد پاکستان واپس ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ ۵ سالوں میں یورپین ممالک سے 273331 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔

پڑھا لکھا نوجوان ہر ملک کا اثاثہ ہوتا ہے، ہم اپنے تیار نوجوان جنہوں نے اپنے پروفیشنل کیرئر کا آغاز کرنا ہے ہم انہیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان سے چلے جائیں۔
نوجوانوں کا کہنا ہے ہماری ماں باپ اتنا پیسہ لگاتے ہیں ہماری تعلیم پر صرف اس امید اور آسرے پر کہ پڑھائی ختم ہوتے ہی ہمیں اچھی جاب مل جائے گی اور ہم انکے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ ہم میں سے بہت سے بائکیا، کریم ، فوڈ پانڈا پر کام کر رہے ہیں۔ کیا کریں جہاں جاؤ کہتے ہیں سی وی چھوڑ جائیں ضرورت ہوئی تو کال کر لیں گے۔ گورنمنٹ کی جاب بغیر رشوت دیے یا سفارش کے ممکن نہیں۔
پاکستان سے باہر اچھی جاب نہیں تو کوئی کام تو مل جائے گا۔ گھر والوں کو کچھ تو بھیجیں گے۔ یہاں تو دن بدن حالات خراب ہو رہے ہیں گزارا بہت مشکل ہے۔

پاکستان کو ایسی موثر پالیسیاں اپنانی چاہئیں جو ملک اور اس کے شہریوں دونوں کے لیے مددگار ہوں، جیسے تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر ملازمت کے مواقع فراہم کرنا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو پرکشش تنخواہوں کے پیکجز کی پیشکش؛ نسل، قومیت یا مذہب سے قطع نظر تمام افراد کے لیے میرٹ پر مبنی ملازمت کو بہتر بنانا؛ کاروباری مہارت نوجوانوں کو خود باعزت روزی کمانے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ اور پرجوش افراد کے لیے مواقع پیدا کرنا قانون سازوں کا فرض ہونا چاہیے۔

دعا ہے اللہ پاک ہمارے حکمرانوں، اسٹیبلشمنٹ کو حالات کو سمجھنے کی اورصحیح فیصلہ کرنے کی توفیق دے آمین۔

اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
سید ثاقب آمین چشتی
saqib.chishty@gmail.com

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔