عمرہ حج کامتبادل نہیں ہے.

فرخ شہزاد

حج اسلام کا بنیادی رکن ہے جس کی ادائیگی استطاعت کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے۔ اگر آپ کے پاس اتنی رقم جمع ہوجائے جس سے آپ حج کر سکیں تو حج کرنا فرض ہو جاتا ہے اور اس میں تاخیر کرنا گناہ میں شمار ہوتا ہے لیکن انتہائی حیران کن بات ہے کہ ہمیں اس رکن کی اہمیت سے آگاہ ہی نہیں کیا جاتا ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ کا گھر دیکھنا ہے۔ یہ زیادہ تر وہ لو گ ہیں جو استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ اللہ کا گھر دیکھنا چاہتے ہیں اور رسول اکرم ﷺ کے روضہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کی شدید تڑپ رکھتے ہیں۔ وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب اللہ کا بلاوا آئے گا۔ ایسے بہت سے لوگوں کی خواہش پوری نہیں ہو پاتی اور وہ دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کے گھر جانے کا خیال ہی نہیں آتا اور وہ حج کی خواہش نہیں رکھتے۔ ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو امیر کبیر تھے لیکن انہوں نے حج نہ کیا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس طبقے میں دو قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک وہ جن کا دین کی طرف رجحان نہیں ہوتا چنانچہ ان کو حج کرنے کا خیال نہیں آتا۔ جبکہ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف اس لئے مسلمان کہلاتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور انہیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ اللہ کون ہے اور اسلام کیا ہے؟ ان کے نام اسلامی ہیں اور وہ بادل نخواستہ اپنے کندھوں پراسلام کی گٹھڑی اٹھائے زندگی گزاردیتے ہیں۔ ان کی توجہ اس طرف نہیں جاتی ورنہ وہ اپنا نام ہی بدل لیں اور اسلام کی گٹھڑی بھی اٹھا کر پھینک دیں۔ ایسے لوگ انتہا پسند لبرل کہلاتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں مادر پدر آزادی کے تصورات ہوتے ہیں۔ یہ ویسی ہی آزادی چاہتے ہیں جیسی جانوروں کو حاصل ہے۔ یہ “میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ ہم موضوع سے ہٹ رہے ہیں واپس اس کی طرف آتے ہیں۔ اب ہم ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو ایک بار نہیں بار بار حج یا عمرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہوتا ہے اور وہ اللہ کے عطا کردہ مال کواللہ کے گھر میں بار بار حاضری دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی موجو د ہیں جو کرونا کی وباء سے پہلے گذشتہ 30 یا 35 سالوں سے ہر سال عمرہ کرنے جاتے رہے اور رمضان کا مہینہ سر زمین مقدس میں گزارتے رہے۔ بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو بار بار حج اور عمرہ کرنے کی بجائے یہی رقم غریبوں کی مدد پر خرچ کرنی چاہیے۔ اس اعتراض کا علماء ہی صحیح جواب دے سکتے ہیں۔
تاہم علماء اس سوال کے جواب میں خاموشی اختیار کرتے ہیں وہ اپنے جواب سے کوئی حجت قائم نہیں کرنا چاہتے۔ اوپر بیان کردہ لوگوں کے برعکس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کے گھر جانے کیلئے پونجی جمع کرتے رہتے ہیں اور جب حج کا وقت آتا ہے تو کوئی دُکھی غریب انسان ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیتا ہے اور وہ اپنا تمام مال و متاع اس غریب کے مسئلے کو حل کرنے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو انفاق فی سبیل اللہ کو بار بار حج اور عمرہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ اللہ ہی کرے گا ان میں سے کون بہتر ہے؟
اب ہم ایک انتہائی اہم مسئلے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ بہت لوگ ایسے ہیں جو حج نہیں کرتے بلکہ صرف عمرہ کر رہے ہیں اور یہ سمجھ کر مطمئن ہیں کہ انہوں نے اللہ کا گھر دیکھ لیا۔ یہ رجحان اس وقت سے بہت زیادہ ہو گیا ہے جب حج کے اخراجات دوگنا سے زیادہ ہو گئے۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے عمرہ کا راستہ اختیار کر لیا اور حج کو بھلا دیا۔ ایسے لوگوں نے اللہ کا گھر اور رسول اکرمﷺ کا روضۂ مبارک دیکھ کر اپنا دل خوش کر لیا۔ دراصل ایسے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ عمرہ حج کا بدل نہیں اور اللہ کا گھر دیکھ کر وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے فریضہ ادا کر دیا۔ ان میں سے کچھ توایسے ہیں کہ وہ حج کے لئے مزید رقم جمع کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں اور عمرہ کے ذریعے اپنا شوق پورا کر رہے ہیں تاہم ہمارے علم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ پورا پورا خاندان عمرہ کرنے جا رہا ہے لیکن اس خاندان کے جن افراد پر حج فرض ہو چکا وہ حج نہیں کر رہے۔ ہم ایسے لوگوں سے بھی واقف ہیں جنہوں نے حج کیلئے درخواستیں دیں پہلی اور دوسری قرعہ اندازی میں ان کے نام نہیں آئے۔ تیسری باری میں حج کے اخراجات دوگنا ہو گئے تو انہوں نے تیسری بار حج کی درخواست نہ دی اور عمرہ کا راستہ اختیار کر لیا باوجود اس کے کہ ان کے پاس حج کرنے کیلئے رقم موجود تھی۔ ایسے لوگوں نے کسی عالم دین سے مشورہ نہ کیا بلکہ ایک دوسرے کی تقلید کی۔
ہماری علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم ترین مسئلے بارے لوگوں کو آگاہ کریں کہ عمرہ حج کا بدل نہیں ہے اور عمرے کو حج پر ترجیح نہ دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو اس طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ حج کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ اسی طرح حج کو ترک نہ کریں۔ تمام فرض عبادات کے معاملے میں دعوت و ترغیب کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی اَن پڑھ ہے وہ خود دین کا مطالعہ نہیں کر سکتے انہیں مسجد کا امام جتنا دین سکھا دے وہ اتنا ہی جانتے ہیں اس لئے مساجد کے خطیبوں کو فرائض کی ادائیگی کی اہمیت بارے زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حج کے موضوع پرمکمل خطبہ دیا جائے اور لوگوں کواس بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔ اُمید ہے علماء کرام ہماری درخواست پر بھر پور توجہ دیں گے۔