اُف تک نہ کہو

ڈاکٹر فرخ شہزاد

اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوتا ہے جب کوئی ماں باپ کے معاملے میں کوتاہی یا گستاخی کا ارتکاب کرتا ہے۔ رب کائنات نے اس بارے چند الفاظ پر مشتمل اتنا واضح حکم دیا ہے کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔ فرمایا “ ان کے سامنے اُف تک نہ کہو(Uff tak na Kaho)‌” یہ ریڈ لائن ہے جس نے ان کے سامنے اُف کہا وہ ریڈ لائن کراس کر گیا۔ اب اس کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ریڈ لائن سے واپس لوٹ کر ماں باپ کے قدموں میں گر جائے اور معافی طلب کرے۔ ماں باپ انسان کی دوزخ یا جنت ہیں۔
انسان اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہوئے دن رات محنت کرتا ہے۔ پریشانیوں اور مشکلات سے نبرد آزما رہتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ اس کے ماں باپ نے بھی اس کی پرورش کرتے ہوئے یہ تمام مشقتیں برداشت کی تھیں اور اپنی نیندیں خراب کی تھیں۔ ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی میں مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ ان کے ساتھ ہمیشہ مسکرا کر اور جھک کر بات کی جائے۔
2۔ ماں باپ جب پکاریں تو لپک کر ان کی بات سنیں۔
3۔ وہ کوئی کام کہیں تو سارے کام چھوڑ کر ان کا کام کیا جائے۔ اگر فوری طور پر ایسا ممکن نہ ہو تو انہیں اطمینان دلایا جائے کہ پہلی فرصت میں یہ کام ہوگا۔
4۔ وہ کوئی حکم دیں یا نصیحت کریں تو اس پر عمل کیا جائے۔ گناہ اور اللہ کوناراض کرنے والے حکم پر تعمیل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
5۔ ان کے آرام اور سکھ کا پورا خیال رکھا جائے۔ اس کے لیے جو بھی سہولت میسرکی جا سکتی ہو کی جائے۔
6۔ اگر وہ بیمار ہوں تو اُن کو بہترین علاج فراہم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس معاملے میں کنجوسی نہ کی جائے۔ ان کی تیمار داری میں کوئی غفلت نہ کی جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے انسان اپنے بیمار بچوں کے علاج اور تیمار داری کے معاملے میں کوئی غفلت نہیں برتتا۔
7۔ اُن کو ضروریات فراہم کرنے میں کوتاہی نہ کی جائے۔
8۔ ان کو ان کی پسند کے مطابق بہترین لباس فراہم کیا جائے۔
9۔ ان کی کوئی بات ناگوار گزرے تو درگزر کیا جائے۔
10۔ ان سے کسی بات پر اختلاف ہو تو انتہائی ادب و احترام اور پیار سے ان سے بات چیت کی جائے۔
11۔ ان کا دل توڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
12۔ ان کی ٹانگیں دبائی جائیں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔انہیں یہ خوشی فراہم کی جائے۔
13۔ انہیں اُداس نہ ہونے دیا جائے۔
14۔ وراثت میں ان کا جو حق بنتا ہے وہ انہیں فوراً ادا کیا جائے۔
15۔ ان کے دوستوں اور عزیز و اقارب سے تعلق کو قائم رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔
16۔ ان پر نظر پڑتے ہی ان کے لیے دُعا کی جائے۔
17۔ جو لوگ بیرون ملک شفٹ ہو ں وہ ماں باپ کو اپنے ساتھ لے کر جائیں۔
18۔ وہ اس دنیا سے رُخصت ہو جائیں تو ان کے لیے متواتر مغفرت کی دُعا کی جائے۔ ان کے نام پر صدقہ و خیرات کیا جائے، ان کے دوستوں سے تعلق قائم رکھا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر جماعت کے تعلیمی نصاب میں ماں باپ کے حقوق و احترام بارے ابواب شامل کئے جائیں۔ علماء کرام کو چاہیے کہ اس موضوع پر بھر پور توجہ دیں اور جمعہ کے ہر خطبہ میں اس بارے تاکید کی جائے۔ قرآن مجید کی وہ آیات جن میں “ ان کے سامنے اُف تک نہ کہو (Uff tak na Kaho)” حکم ہے، ان کو فریم کروا کر ہر گھر میں آویزاں کیا جانا چاہیے۔ اب ہم قرآن مجید کی ان آیات کا ترجمہ پیش کررہے ہیں۔
“ تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو (Uff tak na Kaho) اور نہ انہیں جھڑکو بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو، اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دُعا کرو کہ: یا رب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پالا ہے آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجئے”۔
(بنی اسرائیل۔ آیات 24-23)
اس کے علاوہ سورۃ عنکبوت کی آیت 8، سورۃ لقمان کی آیات 15-14 اور سورۃ احقاف کی آیت نمبر15 میں اسی طرح والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے اس بابت ارشادات میں سے چند درج ذیل ہیں۔ فرمایا:
“ اس شخص کے لیے ذلت ہے، اس شخص کے لیے ذلت ہے، اس شخص کے لیے ذلت ہے”۔ لوگوں نے پوچھا کس کے لیے۔ یا رسول اللہ ﷺ؟ فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور اس کے باوجود وہ جنت میں داخل نہ ہو سکا (مسلم۔6510)۔
رسول اکرم ﷺ سے ایک شخص نے جہاد کی اِجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا: تمہارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا: پھر اُن کی خدمت میں رہو۔ یہی جہاد ہے (بخاری۔3004)
ایک صحابی نے رسول اکرم ﷺ سے جہاد کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: تمہاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا تو اس کی خدمت میں رہو۔ اس لیے کہ جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے۔ (نسائی۔3106)۔ فرمایا: پرودگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور اس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی۔1899)۔ فرمایا: جنت کا بہترین دروازہ باپ ہے۔ اس لیے چاہو تو اسے ضائع کروچاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ (ترمذی۔1900)۔
بقول شاعر:
؎ اپنی جنت کو تو اپنے لیے دوزخ نہ بنا
اپنے ماں باپ کا تو دِل نہ دُکھا دِل نہ دُکھا

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔