قرآن مجید کا مطالعہ کیوں اور کیسے؟

ڈاکٹر فرخ شہزاد

جب ہم قرآن مجید کی عربی میں تلاوت کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ قرآن پڑھو۔ بہت سے لوگ روزانہ قرآن مجید کھولتے ہیں اور تلاوت کرتے ہیں چونکہ قرآن مجید مجید عربی زبان میں ہے اس لئے جب ہم عربی میں تلاوت کرتے ہیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں۔ اس طرح تلاوت کرکے ہم سوائے ثواب کے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ حالانکہ قرآن مجید کی تلاوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کیا کہہ رہا ہے۔ اس کے کیا احکامات ہیں اور پھر ان احکامات کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں۔ مقام حیرت ہے کہ ہمارے دل میں یہ خیال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جو ہم پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب بھی جاننے کی کوشش کریں۔ حالانکہ کسی بھی انسان کے ہاتھ میں کوئی تحریر آجائے اور وہ اس کا مطلب نہ جانتا ہو تو وہ بے چین ہو جاتا ہے کہ کسی ایسے آدمی سے رابطہ کرے جو اسے اس تحریر کا مطلب بتا دے۔ اگر ڈاکیا آپ کو کوئی خط پہنچائے جو آپ کو پڑھنا نہ آتا ہو تو آپ بھاگے دوڑے ایسے فرد کے پاس جاتے ہیں جو خط پڑھنا جانتا ہو اور جب تک آپ کو اس خط کا مطلب پتہ نہ چل جائے تو آپ بے چین رہتے ہیں۔ مطلب جاننے کے بعد آپ کی بے چینی ختم ہو جاتی ہے اور آپ سکون میں آجاتے ہیں۔

قرآن مجید دراصل اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ایک طویل پیغام ہے۔ اللہ کے رسول کو پیغمبر اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ یہ پیغام انسانوں تک پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئے۔ اللہ کے رسولؐ ساری زندگی اس پیغام کا پرچار کرتے رہے۔ وہ لوگوں کو سمجھاتے رہے کہ اس پیغام کو سنو، اسے پڑھو، اپنی زندگیاں اس کے مطابق گزارو۔ چونکہ یہ پیغام عربی زبان میں نازل ہوا اس لیے عرب کے لوگوں نے جب اسے سنا تو ان کی سمجھ میں آگیا۔ اس پیغام کی روشنی میں اللہ کے رسول ؐ نے احادیث کی صورت میں جو تعلیمات دی وہ بھی لوگوں تک پہنچ گئیں۔ اس پیغام اور رسول اکرم کی تعلیمات کے نتیجے میں خطہ عرب میں ایک انقلاب برپا ہوا اور آہستہ آہستہ اس انقلاب کی کرنیں ساری دنیا میں پھیل گئیں۔ انہی کرنوں کے نتیجے میں آج ہم مسلمان ہیں لیکن ایسے مسلمان ہیں جو یہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا کیا پیغام دیا ہے۔ روز محشر اگر اللہ تعالیٰ یہ سوال کرے گا کہ تم نے قرآن پڑھا تھا؟ تو ہم کہیں گے “جی اللہ میاں پڑھا تھا”۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ اس میں کیا لکھا تھا؟ تو کیا ہم اسے یہ جواب دیں گے کہ “وہ تو عربی میں تھا ہمیں کیا معلوم کہ اس میں کیا لکھا تھا؟۔ ہمیں قیامت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں آج ہی سوچنا چاہیے کہ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ ہم پر فرض ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام کو جاننے اور سمجھنے کا وقت نکالیں۔ قرآن مجید کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تلاوت ہے قرآن مجید کا مطالعہ کرنا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کا مطالعہ کس طرح کریں؟ اس وقت ملک میں بہت سے آسان ترجمے اور تفاسیر موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ آسان ترجمہ مولانا مودوی ؒ کا لکھا ہوا ہے۔ اس میں دل نشین زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک صفحہ پر عربی لکھی ہوئی ہے اور سامنے والے صفحے پر اُردُو ترجمہ جس کا فائدہ یہ ہے کہ عربی کے بعد اُردُو ترجمہ پڑھتے ہوئے ربط نہیں ٹوٹتا اور آپ ایک پیرائے میں پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مولانا نے پہلے تفسیر لکھی بعد میں تفسیر کے علاوہ ترجمہ علیحدہ سے شائع کیا گیا۔ اس طرح وہ خوبصورت تخلیقات وجود میں آئیں۔ اسی طرح مولانا شبیر احمد کا دو رنگوں میں لکھا گیا ترجمہ موجود ہے۔ اس میں عربی کے ہر لفظ کا اسی رنگ میں ترجمہ ہے اس طرح یہ ایک منفرد اور خوبصورت تخلیق بن جاتی ہے اور زبان بھی آسان استعمال کی گئی ہے۔
چند سال پہلے مفتی تقی عثمانی صاحب کا “آسان ترجمہ قرآن” کے عنوان سے ترجمہ شائع ہا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کو چوٹی کے علماء میں بلند ترین مقام حاصل ہے۔ اس ترجمہ کی صورت میں لوگوں کو اس سوال کا جواب مل گیا کہ قرآن مجید کا مطالعہ کس طرح کریں؟ بریلوی مکتبہ فکر رکھنے والے افراد پیر کرم شاہ الزہری ؒ کے ترجمہ اور تفسیر “ضیاء القرآن” سے استفادی کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی قرآن مجید کے آسان ترجمے موجود ہیں۔ یہاں چند تراجم کی اس لیے نشاندہی کی گئی تاکہ کوئی یہ سوال نہ کرے کہ ہم کون سا ترجمہ پڑھیں؟ اگر قرآن مجید کا مطالع کرتے ہوئے کوئی اشکال پیش آئے تو اپنی قریبی مسجد کے امام سے رجوع کرنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ اشکال سے صرف نظر کیا جائے اور قرآن مجید کی تعلیمات کی طرف توجہ دی جائے۔ ہر مسلمان کو زندگی میں ایک بار ضرور قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا چاہیے۔ اگرچہ حکم یہ کہ زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔ جو جتنی زیادہ تلاوت کرے گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹے گا۔ ماہ رمضان میں پورا قرآن مجید باترجمہ پڑھنا چاہیے اس کے علاوہ سال بھر میں تھوڑا تھوڑا قرآن مجید باترجمہ پڑھتے رہنا چاہیے۔
آخر میں اس سوال کا جواب کہ کیاخود قرآن مجید کا مطالعہ کرلینے سے ہماری ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں ہم اپنے بچوں کو قرآن مجید کا ناظرہ کروالیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ بچوں کے معاملے میں قرآن مجید بارے ہماری ذمہ داری پوری ہو گئی۔ ایسا کرکے ہم آدھی ذمہ داری پوری کرتے ہیں مکمل ذمہ داری اس طرح پوری ہوتی ہے کہ جیسے ہی بچے سمجھدار ہوں انہیں قرآن مجید کے ترجمہ کا دورہ بھی مکمل کروایا جائے۔ ایسا کرکے ہمیں بے انتہا خوشی محسوس ہو گی اور اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سنورنے کا ذریعہ بنیں گے۔
کیا صرف قرآن مجید کا مطالع کرلینا ہی کافی ہے؟ نہیں۔ اللہ کے رسول ؐ نے دو طرح کے پیغامات ہم تک پہنچائے۔ ایک قرآن مجید اور دوسری وہ تعلیمات جن کا قرآن مجید میں ذکر موجود نہیں۔ یہ تعلیمات احادیث نبویؐ کی صورت میں موجود ہیں۔ ہر مسلمان کو قرآن کے مطالعہ کے علاوہ احادیث نبویؐ اور سیرت النبی ؐ کا بھی باقاعدگی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔