ریاست اسرائیل قریب المرگ ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ریاست اسرائیل قریب المرگ ہے
(Israel is breathing its last breath, by Ari Shavit)
(اسرائیلی اخبار”ہارٹیز،10اکتوبر”میں شائع ہونے والامضمون)
تحریر: “عاری شابیط”( یہودی دانشور،مصنف،صحافی)
ترجمہ:ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
drsajidkhakwani@gmail.com
معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا واسطہ تاریخ کے مشتعل ترین لوگوں سے پڑ گیا ہے اور فلسطینیوں کی زمین پران کا حق تسلیم کیے بغیرکوئی چارہ کار نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اسرائیلیوں کے لیے ارض فلسطین پر قبضہ کا تسلسل، باہرسے آئے یہودیوں کی آباد کاری اورحصول امن ممکن نہیں رہا۔ اوراسی طرح صہیونیت میں تحریک تجدید، تحفظ جمہوریت اور مملکت میں آبادی کا پھیلاؤ بھی اب مزید نہیں چل پائیں گے۔ ان حالات میں اس ملک میں رہنے کا کوئی مزا باقی نہیں رہا اوراسی طرح “روزنامہ ہارٹیز” میں لکھنا بھی بد مزہ ہوگیا ہے اور”روزنامہ ہارٹیز” کے مطالعہ میں بھی اب کچھ کشش باقی نہیں رہی۔ اب ہمیں وہی کرنا پڑے گا جو دو سال پہلے “روگیل الفار” نے کیا تھا اور وہ یہ کہ ملک چھوڑ کر باہر چلا گیا تھا۔ مملکت اسرائیل نے ہمیں اپنی شناخت نہیں دی کیونکہ ہراسرائیلی شہری اورہریہودی کے پاس باہرکے کسی نہ کسی ملک کا پاسپورٹ بھی اس کی جیب میں موجود ہے۔ اوراس کی وجہ کو ئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا ہرشہری نفسیاتی طورپر اس عمل کے لیے قائل ہے، تب سمجھ لینا چاہیے کہ کھیل ختم ہوچکا ہے اورآپ کوچاہیے اپنے دوستوں کو خداحافظ کہہ کرسان فرانسسکو، برلن یا پیرس کو سدھارجائیں۔ اس طرح جرمن قوم پرستوں میں بیٹھ کر سرزمین امریکہ میں امریکی قوم پرستوں میں بیٹھ کر کم ازکم وہ آرام سے، سکون اور اطمان سے دیکھ سکے گا اسرائیل کی ریاست دم توڑ رہی ہے اوراپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اورقریب المرگ ہے۔ ہمیں لازمی طورپرتین قدم پیچھے ہٹ کر یہودی جمہوری ریاست کے ڈوبنے کے مناظر دیکھنے ہوں گے کیونکہ مسائل ابھی تک اپنے حل سے کوسوں دورہیں۔
شاید ابھی بھی ہم بند گلی سے نکل سکتے ہیں، ابھی بھی ارض فلسطین پرقبضہ ختم کیا جاسکتا ہے،ابھی بھی مواقع موجود ہیں کہ صہیونیت کی تازہ تحریک میں اصلاحات ہوسکیں، ابھی بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات موجود ہیں اور ابھی بھی تقسیم مملکت ہوسکتی ہے۔ میرادل کرتا ہے کہ میں بن یامین نتن یاہو، لیب مین اورنیونازیس کی آنکھیں کھولوں اورانہیں صہیونیت کی تباہی و بربادی کامشاہدہ کراؤں۔ اور انہیں باور کراؤں کہ ڈانلڈ ٹرمپ،کوشنر، بائڈن، بارک اوباما اورہیلری کلنٹن کبھی ارض فلسطین پر یہ قبضہ ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اور اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی غیرملکی یہودیوں کی آبادکاری کبھی بھی نہیں روکیں گے۔ بس پوری دنیا میں اگرکوئی اسرائیلی سلطنت اور اسرائیلی عوام کے بچا سکتاہے تووہ خود اسرائیلی عوام ہیں جنہیں ایک نوزائدہ سیاسی معاہدے کے تحت بہرحال تسلیم کرنا ہو گا کہ اس ارض فلسطین کے اصل مالک فلسطینی ہی ہیں اوریہ انہی کا وطن ہے ، میں اپنے اسی تیسرے راستے کے موقف کو ہی پرزورطریقے سے پیش کروں گا اگرہم یہاں زندہ رہنا چاہتے ہیں اورمرنا نہیں چاہتے۔ اسرائیلی عوام جب سے فلسطین میں آباد ہوئی ہے اسے تب سے تحریک صہیونیت انہیں تاریخی طور پر جھوٹ بول بول کریہ دھوکا دیے چلی جا رہی ہے اور صہیونی کارندے ہولوکاسٹ کوغیرمعمولی طور پربڑھا چڑھا کرپیش کرنے کے بعد سے ملت بنی اسرائیل کو باربار یہ جھوٹ کہتے چلے آرہے ہیں کہ خداوند خدا نے تم سے ارض فلسطین کا وعدہ کر رکھا ہے اور ہیکل سلیمانی بھی دراصل مسجد اقصی کے نیچے موجود ہے۔ پس اس طرح ٹیکس کی بھاری رقوم چوس چوس کر بھیڑیے ایٹمی طاقت بن گئے۔ اب تو تل ابیب یونیورسٹی کے محققین اوربہت سے مغربی ماہرین آثارقد یمہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہیکل سلیمانی کا وجود ختم ہوچکا اور کہیں بھی اس کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ آخری دفعہ ۱۹۶۸ء میں برطانوی سکول آف آثار قدیمہ (British School of Archeology) یروشلم کی ڈائرکٹرکیٹلین کبی نوس نے بھی کھدائی کرکے ہیکل سلیمانی کے آثارتلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ بھی نہ ملا،جسے اسرائیلی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں اس طرح کی عمارت کے کئی نقشے کتابوں میں ملتے ہیں اورارض فلسطین کے متعدد مقامات کی تعمیرکی شہادتیں بھی میسرہیں لیکن مسجد اقصی کے نیچے ایسی کسی عمارت کا تصورایک مفروضے کے سواکچھ نہیں۔ اس سے قبل انیسویں صدی کے وسط میں بھی “کیتھلین کینون” فلسطین اسی لیے آئی تھی کہ عہد نامہ قدیم کی کتب کے مطابق اس مقام کی نشاندہی کی جاسکے جہاں یہ عمارت قائم کی گئی تھی۔
کیا یہ اسرائیلیوں کے لیے کسی لعنت سے کم ہے کہ مقدسیوں، خلیلیوں اور نابلوسیوں سے روزانہ چھریوں اورچاقوں جیسے تھپڑاپنے چہروں پر کھائیں یا ان کی ڈرائیورزجفا، حیفہ اور ایسرجاتے ہوئے پتھروں پرپتھر کھاتے ہوتے ہوئے وہاں پہنچیں۔ اب اسرائیلی جان چکے ہیں کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ارض فلسطین کے کوئی وارث نہ ہوں۔ بائیں بازوکے کے ایک صہیونی دانشور اور مصنف “گڈون لیوے” نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ یہودیوں کونہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کا حق تملیک ماننا پڑے گا بلکہ ارض فلسطین پر انہیں برتری دینا ہوگی کیونکہ فلسطینی باقی دنیا سے مختلف فطرت کے لوگ ہیں۔ ہم انہیں بدکاراور نشئی کہتے ہیں اورپھر ہم نے ان کی زمینوں پرقبضہ کیا ہے اورپھربھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کو فراموش کرد یں، تب ہی وہ ۱۹۸۷ سے حالت مظاہرہ میں ہیں اورہم انہیں قید خانوں میں بھرتے جارہے ہیں۔ سالوں بعد جب ہم سمجھے کہ اب انہیں سبق سکھایا جا چکا ہے لیکن ۲۰۰۰ء میں اپنی کھائی گئی زمینیں واگزارکرانے کے لیے وہ مسلح ہوکرہمارے سامنے آ گئے۔ اس کے باوجود ہم نے ان کامحاصرہ جاری رکھا اور ان کے گھروں کو ملیا میٹ کرتے رہے۔ اب کی دفعہ جب انہوں نے ہمارے اوپر میزائل داغنا شروع کردیے توہم نے ان کے اوراپنے درمیان بلند بالا دیواریں اور باڑھ لگانے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کردی۔ اس کے ردعمل میں انہوں سرنگیں کھودیں اور زیرزمین سے ہم پر حملہ آورہوئے یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے آغاز میں انہوں نے ہماری ریاست اسرائیل کے اندر گھس کر ہمیں قتل کرنا اورمارنا شروع کر دیا۔ ہم نے اپنی فکراورسوچ سے ان کے لڑائی شروع کی لیکن انہوں نے ہمارے خلائی سیارہ “آموس” کوہی جام کردیا۔ وہ مسلسل ہمیں دھمکیوں پردھمکیاں دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اسرائیلی نشریاتی اداروں کوبھی بند کرکے جام کردیں گے۔ پس ہمیں تاریخ کے مشکل ترین افراد سے پالا پڑ گیا ہے اور انہیں مانے بغیر اور سرزمین فلسطین پراپنا قبضہ ختم کیے بغیراس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔
Israel is breathing its last breath, by Ari Shavit Israel is breathing its last (neptuneprime.com.ng)

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔