اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست (Revision Petition) پرچیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے وکیل الیکشن کمیشن سے کہاکہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے،کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے،تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی،جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتے،عوام کو اپنی رائے کے اظہارکا موقع ملنا چاہئے، الیکشن کمیشن کافیصلہ میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا،الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہو گیا، انتخابات ہر صورت ہونگے ۔
اّج سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست(Revision Petition) پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ 8 اکتوبر کی تاریخ حقائق کے مطابق دی تھی، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ 8 ستمبر کو الیکشن کمیشن مجھے کہے کہ اکتوبر میں الیکشن ممکن نہیں توکیا ہوگا؟ الیکشن کمیشن 2 سال کہتا رہے گا کہ انتخابات ممکن نہیں،انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا فرض ہے، صوابدید نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ نے خود کہا آئین کی روح جمہوریت ہے، کب تک انتخابات آگے کرکے جمہوریت قربان کرتے رہیں گے، تاریخ میں کئی مرتبہ جمہوریت قربان کی گئی، جب بھی جمہوریت کی قربانی دی گئی کئی سال نتائج بھگتے،عوام کو اپنی رائے کے اظہارکا موقع ملنا چاہئے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ میں صرف وسائل نہ ہونے کا ذکر تھا،الیکشن کمیشن کب کہے گا کہ اب بہت ہو گیا، انتخابات ہر صورت ہونگے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اب الیکشن کمیشن سیاسی بات کررہا ہے، بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آﺅٹ60 فیصد تھا، سکیورٹی خدشات کے باوجود بلوچستان کے عوام نے ووٹ ڈالا، انتخابات تاخیر کا شکار ہو تو منفی قوتیں اپنا زور لگاتی ہیں، بطور آئین کے محافظ عدالت کب تک خاموش رہے گی، آرٹیکل 224کو سردخانے میں کتنا عرصہ تک رکھ سکتے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ 9مئی کے واقعات سے الیکشن کمیشن کے خدشات درست ثابت ہوئے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے خدشات کی نہیں آئین کے اصولوں کی بات کرنی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عام انتخابات کا مطلب صرف قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں ہوتا، ایک ساتھ انتخابات میں 5 جنرل الیکشن ہوتے ہیں، وزیراعظم اور وزراعلیٰ 6 ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کردیں تو کمیشن کیا کرے گا، وزیراعظم اور وزراعلیٰ کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی ویٹو پاور ہے، وزیراعظم اوروزیراعلیٰ جب چاہیں اسمبلیاں تحلیل کر سکتے ہیں۔