قاسمی صاحب نے قادری صاحب کی یاد تازہ کر دی

تاریخ پاکستان اور تاریخ تحریک پاکستان کے طالب علم کے لیے علی گڑھ سے گریز ناممکن ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اس کے اساتذہ اور طلباء کی محنت یقینا کارہائے نمایاں کا سبب بنی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی شعر گوئی اور دیگر غیر ضروری مشاغل کسی فکری تحریک کی بنیاد نہ بن سکتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے تحریک پاکستان کی فکری آبیاری کی۔ دیگر شہروں میں موجود محرک افراد کی تائید سے انہیں مستحکم کیا۔

              ڈاکٹر افضال حسین قادری

علی گڑھ یونیورسٹی نے جہاں علمی اور فکری انقلاب برپا کیا اور وہ نوجوان پیدا کیے جنہیں اقبال اور قائد نے سراہا۔ قائد نے تو علی گڑھ یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اسلحہ خانہ کہا۔ علی گڑھ کی خدمات میں سے اہم ترین وہ دستاویز تھی جس کا عنوان ”ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل“ تھا جو انگریزی میں لکھی گئی یہ برصغیر کی تقسیم کی تجویز بااعتبار مذہب اور جغرافیائی حدود لیے ہوئے تھی۔ اس مجوزہ تقسیم کی دستاویز بعد ازاں ”علی گڑھ سکیم“ کہلائی۔ علی گڑھ سکیم دو بڑے دماغوں کی فکری، ذہنی مشقت کا نتیجہ تھی جو ڈاکٹر سید ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین قادری تھے۔ دونوں حضرات نے برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ایک فلسفہ کے استاد تھے اور ایک زولوجی کے۔ ڈاکٹر ظفر الحسن معمر تھے اور ڈاکٹر افضال قدرے جوان تھے۔
نہایت خوشی کا باعث ہوا جب ڈاکٹر افضال حسین قادری صاحب پر ایک کتاب کی تالیف کی خبر ملی۔ ڈاکٹر افضال حسین قادری کی خدمات اور شخصیت پر تحقیق یقینا تحریک پاکستان پر ہوانے والے تحقیقی کام میں ایک اہم اضافہ ہے۔ محمد مشہود قاسمی صاحب کے اجداد بھی تحریک پاکستان سے وابستہ رہے تھے، جو ان کی اس موضوع سے دلچسپی کا ایک اور حوالہ بھی ہے۔زیر نظر کتاب ”حصول پاکستان تک قائد اعظم کے ہمراہ ڈاکٹر افضال حسین قادری“ ڈاکٹر قادری کی پہلی باقاعدہ سوانح ہے۔
ڈاکٹر افضال حسین قادری کی چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ سے مسلم لیگ میں شامل ہو کر کارہائے نمایاں انجام دینے کی تفصیل اس کتاب کا حصہ ہے۔ مؤلف جناب قاسمی صاحب نے حتی المقدور تمام تاریخی حوالہ جات اور کتب سے استفادہ کیا ہے۔ علی گڑھ سکیم کے حوالے سے اور مسلم لیگ کے دیگر امور پر ڈاکٹر افضال اور قائد اعظم کے درمیان خط و کتابت اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں پندرہ خطوط جن میں ڈاکٹر افضال نے قائد اعظم کو تجاویز دیں یا رائے کا اظہار کیا، کتاب میں شامل ہیں۔ گاندھی جی کے اعتراضات پر بھی جو جواب ڈاکٹر افضال نے دیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے جو کہ ڈاکٹر افضال کی سیاسی بصیرت اور قد کا آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر افضال حسین کیمبرج میں تعلیم کے دوران برطانوی سیاست کو بغور دیکھتے رہے وہاں کی پولیٹیکل سوسائٹی کا حصہ بھی رہے۔ وہاں نہ صرف انہوں نے سائنس پڑھی بلکہ سیاسی بصیرت بھی حاصل کی، یہاں ہی وہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ کا حصہ بن چکے تھے۔
تحریک پاکستان کے لئے علی گڑھ سکیم جیسی دستاویز کی تیاری کے لئے محنت، لگن اور سنجیدگی درکار تھی یہ تمام خوبیاں ڈاکٹر افضال میں موجود تھیں۔ کتاب میں ڈاکٹر افضال کی سیاسی، تعلیمی اور تنظیمی سرگرمیوں میں شمولیت اور خدمات ایک قاری کے لئے ڈاکٹر افضال کی شخصیت کا نقشہ بُنتی ہے۔
ڈاکٹر افضال چونکہ جوان اور محرک تھے اس لیے علی گڑھ سکیم پر مراسلت اور تبادلہ خیال انہی کے ذمہ تھی۔ خوب ذمہ داری سے یہ کام انجام دیا۔ علی گڑھ سکیم ڈاکٹر افضال نے ڈاکٹر ایم ایم احمد (شاگرد ڈاکٹر ظفر الحسن) کی معیت میں میرٹھ میں قائد اعظم کو سمجھائی جو اس کی حقیقی رسم اجراء کہلا سکتی ہے۔
کتاب میں قائد اعظم پیپرز اور نامور مؤرخین کے حوالے کتاب کو اہم بناتے ہیں۔ ہم عصر حضرات کی رائے اور اہل خانہ کے تاثرات ڈاکٹر افضال کی ذاتی زندگی کے گوشے بھی عیاں کرتے ہیں۔ یقینا قاری کے لئے دلچسپی کا باعث بنیں گے اور وہ ڈاکٹر افضال سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔
ڈاکٹر ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین میں عمر کے تفاوت کے باوجود جو تعلق تھا وہ موجودہ اساتذہ اور معاشرے کے افراد کے لئے مشعل راہ ہے۔ کتاب میں اہل خانہ کے تاثرات میں لکھا ہے کہ ”ابا“ (یعنی ڈاکٹر افضال)، ڈاکٹر ظفر الحسن کی علمیت اور قابلیت کے معترف تھے، ان کا اکثر ذکر کرتے، بتاتے کہ اقبال بھی ان کے مداح تھے۔ ڈاکٹر افضال احتراماً ڈاکٹر ظفر الحسن کو ”ابا“ کہہ کر پکارتے۔

مزید یہ کہ ڈاکٹر افضال بہت سادہ تھے، بی بی سی والے ان کے گھر انٹرویو کو آئے تو گھر میں ایک پرانا گھسا ہوا قالین بچھا تھا۔ ابا (یعنی ڈاکٹر افضال) کو یہ قالین ڈاکٹر ظفر الحسن نے ان کی شادی پر گفٹ دیا تھا۔ یہ احترام اور ادب دیکھ کر ڈاکٹر افضال حسین قادری کی شخصیت میں موجود اخلاقی خوبیاں مزید ظاہر ہوتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ڈاکٹرا فضال تعلیم اور تحقیق سے وابستہ رہے۔ کئی بین الاقوامی سائینٹیفک سوسائٹیز کے رکن رہے اور پاکستان میں کئی سائنسی تنظیموں کی داغ بیل ڈالی۔ ڈاکٹر افضال حسین پر یہ تمام معلومات اکٹھا کرنے پر مؤلف محمد مشہود قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ جلال جو معروف مؤرخ اور مصنفہ ہیں نے کتاب پر اپنا تبصرہ لکھا ہے جس سے کتاب کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے۔ فضلی سنز نے کتاب کو بہتر طبع کیا ہے، سرورق موضوع کے مطابق ہے۔ کتاب میں جابجا اخبارات کے تراشے اور تصاویر شامل ہیں جو قاری کے لئے سود مند ہیں۔

اس کتاب میں ڈاکٹر افضال حسین قادری کے بچپن، خاندان (آباؤاجداد)، پرورش کے بارے مواد موجود نہیں۔ ڈاکٹر افضال جو نام کے ساتھ قادری لکھتے تھے، اس کی وجہ بھی کتاب میں نہیں دی گئی۔ المختصر کیمبرج سے پہلے کے ڈاکٹر افضال کے بارے یہ کتاب خاموش ہے۔ بہتر ہو گا کہ پیدائش سے کیمبرج تک کے عرصہ کے حالات کو اگلی اشاعت میں شامل کیا جائے کہ تشنگی دور ہو سکے۔
مجھے اپنی کم علمی اور فکری پستی کا اقرار ہے۔ جو لکھا وہ حرف آخر ہرگز نہیں۔ اس میں بہتری کی گنجائش یقینا ہو سکتی ہے جیسے خود مجھ میں ہے۔
علمی حلقوں اور خصوصاً تاریخ پاکستان کے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ اس کتب کا خیر مقدم کریں اور مؤلف کی محنت سے استفادہ کریں۔

از عثمان وجاہت
راولپنڈی ، پاکستان
uwajahat@gmail.com