بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ( Political instability and social deterioration) ایک دوسرے سے جڑے ہوےؑ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام غیر یقینی اور بدامنی کا ماحول پیدا کرتا ہے، جس سے سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ دوسری طرف، وسیع پیمانے پر سماجی بگاڑ طرزحکمرانی کو متاثر کرتا ہے اور سیاسی عدم استحکام کو بڑھا تا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ ایک دوسرے سے جڑے ہونے کے ناعث معاشروں اور ممالک پر اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام سے مراد ایسی صورت حال ہے جہاں کسی ملک کا سیاسی نظام چیلنجز کا سامنا کر رہا ہو یا تبد یلیوں سے گزر رہا ہو جو حکومتی رٹ میں کمی، غیر یقینی صورتحال اور ممکنہ انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ اس عدم استحکام اور سماجی بگاڑ(Political instability and social deterioration) کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ حکومتی قیادت میں متواتر تبدیلیاں، یہ خواہ انتخابات، بغاوت یا دیگر ذرائع سے ہو، اس طرح کی تبد یلی پالیسیوں اور انتظامیہ کے تسلسل میں خلل ڈالتی ہیں۔ ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اسی منظر کی عکاس اور سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ کی تصویر کشی کر رہا ہے۔ جس کے باعث حکومت اور اداروں کے اندر بے اعتمادی پھیل رہی بے اور بدعنوانی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو عوامی اعتماد کو ختم کررہی ہے، ریاستی اداروں کو کمزور کر رہی ہے اور بدامنی اور بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔
سانحہ جڑانوالہ جیسے افسوسناک اور شرمناک واقعات نسلی، مذہبی یا ثقافتی خطوط پر تقسیم اورعام شہریوں کے درمیان تناؤ اور نفرت پیدا کرتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں، خاص طور پر جب ان سانحات اورسماجی تقسیم کا سیاسی فائدے کے لیے استحصال کیا جائے۔ معاشرے کے اندر تقسیم اور تنازعات سماجی ہم آہنگی کو کمزور کرتے ہیں، جس سے مختلف برادریوں کے لیے مشترکہ مقاصد کے لیے مل کر کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام، قانون کی کمزورحکمرانی کا بھی باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، ناکافی اور کمزورقانونی نظام، انسانی حقوق کے تحفظ کا فقدان، اور انصاف کے منصفانہ نظام کی غیر موجودگی بھی سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔
وطن عزیز کو سیاسی عدم استحکام کے باعث اقتصادی چیلنجزاور دیگر مسا ئل کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے، جیسے کہ بے روزگاری، افراط زر، دولت کی غیر مساوی تقسیم، حصول انصاف میں مشکلات اور سماجی عدم اطمینان وغیرہ۔ یہ تمام وجوہات بھی سیاسی اور سماجی بدامنی اورعدم استحکام کو ہوا دے رہی ہیں۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پیدا ہونے والا سماجی بگاڑ اکثر بڑے پیمانے پر احتجاج، مظاہروں اور تحریکوں کو جنم دیتا ہے جو رائج نظام کے خلاف عوامی عدم اطمینان کو اجاگر کرتے ہیں۔ جیسا کہ آجکل حکومت اورانتظامیہ کو بجلی کے بلوں اور مہنگائی کی وجہ سے عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرحکام کی جانب سے اس طرح کی شکایات کا مناسب طور پر اور بر وقت ازالہ نہیں کیا جاتا تو یہ احتجاج اور مظاہرے کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ ثانت ہوسکتے ہیں جو مذ ید سماجی بگاڑ کا باعث بنے گا۔ کیونکہ سماجی بگاڑ ثقافتی اصولوں، اقدار اور روایات میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور معاشرہ نئے چیلنجوں اورمختلف نظریات کے ٹکراوؑ سے دوچار ہوجاتا ہے۔
سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ (Political instability and social deterioration) نقل مکانی کا باعث بھی بنتا ہے، کیونکہ لوگوں کی پہلی ترجیح اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت اور مستقل ذریعہ روزگارکا حصول اورمعاشی استحکام ہوتا ہے ۔ لیکن پاکستاں کے موجودہ نا موافق حالات کی وجہ سے بے شمار پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد اپنے اور خاندان کے بہتر مستقبل کے لیؑے بیرون ملک جا چکے اور بے شمار لوگ بیرون ملک جانے کے لیؑے موقع کی تلاش میں ہیں۔ اب یہ ارباب اختیار اور ذمہ داران پر منحصر ہے کہ وہ ایسی معاشی پالیسی ترتیب دیں کہ یہ پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد جو کہ ملک کا مستقبل ہیں، ان کو ملک میں ہی موافق حالات میسر آ ئیں اور وطن کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں موثر طرزحکمرانی، قانون کی حکمرانی کا احترام، معاشی اور سماجی تقسیم کو دور کرنا، سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا، بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانا، انصاف کی بروقت اورآسان فراہمی اور معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مکالمے اور گفت و شنید کو فروغ دینا شامل ہے۔ بین الاقوامی تعاون بھی سیاسی عدم استحکام اور سماجی بگاڑ کے اثرات کو روکنے اور کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہےجو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
سید نسیم شاہ
naseem.shah5@gmail.com