چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ 20 ارب روپے کہاں گئے؟ یہ رقم جیسے ملتی رہی ہم نے سندھ حکومت کو ادا کی، سکھر میں گندم کے 20 ارب کے ذخائر اِدھر اُدھر تھے، پوچھا گندم کہاں گئی تو بتایا گیا کہ چوہے کھا گئے، بے شک نیب کی تعریف نہ کریں لیکن تنقید برائے تنقید نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ ریکوری پر کچھ لوگوں نے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی، حالانکہ گزشتہ 4 سال میں تاریخ کی سب سے بڑی ریکوی ہوئی ہے، جس میں 541 ارب روپے کی ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ریکوری شامل ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ لوگوں کو کیوں گمراہ کیا جا رہا ہے؟ نیب مسئلے کا حل ہے، مسئلہ نہیں ہے، ایسے لوگوں پر بھی کیس رجسٹرڈ کیے جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی ہاؤسنگ سوسائٹی نے 14 ارب روپے ادا کیے تو وہ نیب کی تجوری میں نہیں آتے، اگر نیب نہ ہوتا تو نہ 14 ارب ریکور ہوتے اور نہ یہ رقم لوگوں کو واپس ملتی، سوال ہوتا ہے کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ میں یہ پیسے کیوں جمع نہیں کرائے گئے۔
چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کی رقم تھی ان کی تصدیق کر کے 14 ارب کی رقم ان کے حوالے کی گئی، اس رقم پر حکومت کا حق نہیں، یہ متاثرین کی رقم ہے، 56 ارب روپے سے زائد نقد رقم ریکور کی، یہ رقم سوسائٹی سے آئی، جبکہ سوسائٹی کو چیک کرنے کا نظام نہیں تھا، یہ سوسائٹیاں لوگوں کی بربادی کا سبب بنیں۔