الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ روز کراچی (Karachi Elections)میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی اب تک کے نتائج پر مبنی پارٹی پوزیشن جاری کر دی۔الیکشن کمیشن کے مطابق شہر کی 95 یونین کمیٹیز کے نتائج میں پیپلز پارٹی 51 سیٹیں لے کر آگے۔پاکستان تحریک انصاف 21 سیٹوں کے ساتھ دوسر ے جبکہ جماعت اسلامی 19 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔
جے یو آئی، تحریک لبیک اور آزاد امیدواروں نے ایک ایک نشست جیت لی ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کراچی کی 140 نشستوں پر چیئرمین اور وائس چیئرمین کے نتائج آنا باقی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ شہر کی 246 میں سے 235 یونین کمیٹیز میں انتخابات ہوئے ہیں، 11 نشستوں پر امیداروں کے انتقال کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے گئے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے حیدرآباد میں واضح اکثریت حاصل کر لی
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے سلسلے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حیدرآباد ڈویژن سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔
کراچی، خرم شیر زمان ہار گئے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما خرم شیر زمان کی شکست سے تحریک انصاف کو دھچکا ملا ہے، صدر پی ٹی آئی کراچی یوسی کا الیکشن ہار گئے۔
خرم شیر زمان کو صدر ٹاون یوسی 11 سے پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے۔
پولنگ کے دن کا احوال
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ شام 5 بجے تک پولنگ اسٹیشن کے احاطے میں پہنچنے والے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے دیا جائے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر نے اس سلسلے میں پریزائیڈنگ، ریٹرننگ افسران اور انتخابی عملے کو ہدایت جاری کیں۔
کراچی میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے فتح کے دعوے کیے۔
کراچی(Karachi Elections) کے نتائج آنے میں تاخیر ہوئین تو اس تمام تر صورتحال میں الیکشن کمشنر سندھ نے تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کو ہنگامی مراسلہ لکھا جس میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں نے فارم 11 اور 12 پولنگ ایجنٹس کو نہ دینےکی شکایات کی ہیں، آر او کے ذریعے پریزائیڈنگ افسران کو فارم 11، 12 پولنگ ایجنٹس کو دینے کی ہدایت کریں۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ فارم 11 اور 12 فراہم نہیں کیے جا رہے، کچھ ڈی سیز نتائج جاری کرنے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں، آر او نے نتائج کا اعلان نہیں کیا تو شہر بھر میں دھرنے شروع کر دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ کل تک جماعت اسلامی الیکشن کروانے کا کہہ رہی تھی، اب نتائج آنا شروع ہوئے ہیں تو جماعت اسلامی دھرنوں کی بات کر رہی ہے۔
کراچی کی 246 یوسیز اور میئر کے انتخاب کا طریقہ
ہر یوسی میں 4 وارڈز ہیں، ووٹر کو چیئرمین اور وائس چیئرمین کے علاوہ وارڈ کا جنرل کونسلر منتخب کرنا ہوگا، چیئرمین اور وائس چیئرمین کا ایک ووٹ ہوگا، دوسرا ووٹ جنرل کونسلر کا ہوگا، ہر یوسی 11 ارکان پر مشتمل ہوگی، یوسی میں 6 افراد براہِ راست منتخب ہوں گے، یوسی میں 2 خواتین، ایک مزدور، ایک نوجوان اور ایک اقلیت کا نمائندہ شامل ہوگا، یونین کمیٹی میں مخصوص نشستوں کا انتخاب براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے یونین کمیٹی کے 6 ارکان کریں گے۔
شہر کی 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کونسل کے رکن ہوں گے، میٹروپولیٹن کارپوریشن کی کونسل 367 ارکان پر مشتمل ہو گی جن میں 121 مخصوص نشستیں ہیں، میٹروپولیٹن کارپوریشن میں 121 مخصوص نشستوں پر ارکان کا انتخاب کونسل کے 246 ارکان کریں گے۔
میٹروپولیٹن کارپوریشن میں 81 خواتین، 12 مزدور، 12 نوجوانوں کی مخصوص نشستیں شامل ہیں، میٹروپولیٹن کارپوریشن میں 12 اقلیتی ارکان، 2 خواجہ سراء اور 2 معذور افراد کی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے 367 ارکان شہر کا میئر منتخب کریں گے۔
کراچی شہر میں 25 ٹاؤنز ہیں، ہر ٹاؤن کا ایک منتخب ناظم ہوگا، ہر یو سی کا منتخب وائس چیئرمین ٹاؤن کونسل کا رکن ہو گا۔
ٹاؤن کونسل کے ارکان خواتین، مزدور، نوجوان، اقلیت، خواجہ سراء اور معذور کی مخصوص نشستوں پر انتخاب کریں گے۔
کراچی ڈویژن میں چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل ممبر کی نشست کے لیے 9 ہزار 58 امیدوار میدان میں ہیں۔
کراچی سے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے پینل اور جنرل ممبر کی نشست پر مختلف یونین کمیٹیوں سے 7 امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔
کراچی ڈویژن کی جنرل ممبرز اور چیئرمین اور وائس چیئرمین کی 22 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث انتخابات (15 جنوری کو) آج نہیں ہوں گے۔
انتقال کرنے والے امیدواروں میں مختلف یونین کمیٹیوں کے 9 چیئرمین اور وائس چیئرمین جبکہ 13 جنرل ممبرز کے امیدوار بھی شامل ہیں۔