ہزاروں اسرائیلی دانشوروں کا یہودی قیادت پرزبردست عدم اعتماد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ٹائمزآف اسرائیل ۹ستمبر۲۰۲۳ء کی اشاعت کے مطابق ساڑھے تین ہزارسے زائد اسرائیلی ماہرین تعلیم، دانشور، ادیب، شاعر، اداکار، فنکار،سابقہ سفارت کار اور دیگر اہم عوامی راہنماؤں نے بروز جمعۃ المبارک ۸ ستمبرکو امریکی صدر جناب جوبائڈن اوراقوام متحدہ کے معتمد عام جناب انٹونیوغٹرزکو یادداشت پیش کی ہے۔ اسرائیلی مملکت کے ان اہم ترین لوگوں نے امریکی صدر اور اقوام متحدہ کے معتمد عام سے گزارش کی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو ملاقات کے لیے وقت نہ دیں۔ دی یروشلم پوسٹ کے مطابق اس یادداشت میں یہ مطالبہ بھی کیا گیاہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے سے اسرائیلی وزیراعظم کوخطاب سے روک دیا جائے اورانہیں خطاب کا موقع یا اجازت نہ دی جائے۔ یہودی دانشوروں کا اپنی سیاسی قیادت کے خلاف اس قدر اظہارنفرت اوراس مطالبے کا پس منظریہ ہے کہ اس ماہ ستمبر۲۰۲۳ء کے آخر میں نیویارک ، مرکزاقوام متحدہ میں عالمی سربراہ اجلاس ہورہا ہے، جس میں ساری دنیا کے حکمرانوں سمیت اسرائیلی حکومتی سربراہ بھی شامل اجتماع ہوں گے اوریقینی طورپر ان کی امریکی صدراور اقوام متحدہ کے معتمد عام سے ملاقاتیں بھی طے کی جائیں گی۔ اسرائیلی دانشوروں نے عالمی قیادت سے یہ مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ ان کے مطابق اسرائیلی حکومت اپنے جابرانہ اورفسطائی طرزحکمرانی کی وجہ سے چونکہ عوامی اعتماد کھوچکی ہے اس لیے بین الاقوامی قیادت بھی اسے ملاقات سے محروم رکھ کر اسرائیلی عوام کی نفرین کا ساتھ دیں۔ ان ہزاروں اسرائیلی دانشوروں نے خطوط پر متفقہ دستخط کرکے امریکی انتظامیہ کے حوالے بھی کیاہے، جس میں انہوں نے بالاتفاق تحریرکیا ہے کہ “جمہوری جدوجہد کے دل کی طرف سے؛ وزیراعظم نتن یاہو جو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو اپنی نام نہاد عدالتی اصلاحات کے بارے میں فوائد وثمرات فراہم کر رہے ہیں”،ا ن دانشوروں نے خط میں لکھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیلی وزیراعظم کو اجلاس عام میں خطاب کی دعوت دینا اسرائیلی ریاست میں غیرجمہوری رویوں کی حمایت کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ حکمرانوں کی طرف سے جمہوری اداروں کو پامال کیاجا رہا ہے اور اپنی من مرضی قوم پر مسلط کی جارہی ہے۔ دانشوروں نے اپنے خط میں یہ بھی لکھاہے کہ دنیا کے سب سے بڑے ادارے کے ہاں تقریرکرنے سے وزیراعظم نتن یاہوکو اپنی بین الاقوامی بگڑی ہوئی ساکھ دوبارہ بنانے میں مدد مل سکتی ہے حالانکہ اسرائیلی ریاست میں وہ اپنا اعتماد بری طرح سے تباہ کرچکے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے خط میں تحریرتھا کہ وزیراعظم نے جمہوری اداروں کوتباہی کے دہانے پرلا کھڑا کیا ہے اور۲۲۵ ، ایسی قانون سازیاں کی ہیں جو کہ جمہوری روایات کے بالکل برعکس ہیں، خط میں اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف ریاست کے دفاع کو کمزورکرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور یہود کی تاریخی روایات کے خلاف چلنے پربھی انہیں موردالزام ٹہرایا گیا ہے۔ اس خط کے دستخطیوں میں عالمی شہرت یافتہ متعدد کتب کے مولف جناب ڈیوڈگراس مین، جناب ہاگائی لیون جو “سفیدکوٹ نامی اطباء (ڈاکٹرز) کی تنظیم کے سربراہ ہیں اورجناب آڈڈگولڈرچ جوماہرحساب دان کی حیثیت سے بین الاقوامی پہچان رکھتے ہیں اور ۲۰۲۲ء میں اسرائیلی قومی تمغہ بھی سرکارسے حاصل کرچکے ہیں اوراس طرح کے اعلیٰ ترین دیگردماغ بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل امریکی حکومتی اہل کار نے ٹائمزآف اسرائیل کے نمائندے کو بتایا کہ اسرائیلی وزیراعظم سے امریکی صدر بیت الابیض (وائٹ ہاؤس) کی بجائے اقوام متحدہ کے دفاترمیں ہی ملاقات کریں گے۔ اس سے امریکی اوراسرائیلی حکومتوں کے درمیان دوریاں ظاہرہوتی ہیں کیونکہ موجودہ وزیراعظم کی امریکی صدرسے ملاقات کو آٹھ ماہ سے زائدعرصہ گزرچکا ہے اور یہ وقفہ امریکہ واسرائیلی ریاستوں کی قیادت کے درمیان طویل ترین خیال کیا جا رہا ہے۔اسرائیلی نمائندے نے بتایا کہ وزیراعظم نتن یاہوکاخطاب ۲۱ستمبر۲۰۲۳ء کوہوگا لیکن ابھی تک امریکی صدرسے ملاقات کا مقررہ وقت طے نہیں ہوسکا۔ شاید اس لیے بھی کہ مارچ ۲۰۲۳ ء میں امریکی صدر بائڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اب اسرائیلی وزیراعظم کوامریکہ آنے کی دعوت کبھی نہیں دیں گے۔ تل ابیب اور واشنگٹن کے درمیان یہ عدم اعتماد کی فضا د سمبر۲۰۲۲ء سے موجود ہے جس کی وجوہات میں اسرائیلی انتظامیہ کی بدنام زمانہ عدالتی اصلاحات اور فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے معاملات دنیا کی نظروں میں اس قدر مکروہ ہیں کہ ایک سوال کے جواب میں اسرائیلی حکومتی نمائندے نے بتایا کہ دیگرممالک کے کسی سربراہ سے بھی ملاقات ابھی تک طے نہیں ہوسکی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے خلاف صرف اندرون ملک ہی بے پناہ نفرت نہیں بلکہ بیرون ملک بھی کوئی حکومت ابھی تک اسرائیلی قیادت سے ملنے کی روادار نہیں ہے کہ جس نے ملاقات کے لیے وقت کا تقاضا کیا ہو۔
ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ساری دنیا ہی نہیں بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنی عوام بھی کس حد تک ان سے نالاں ہیں۔ اتنے سارے دانشوروں اوراعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا جو دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہوں وہ اپنی یہودی قیادت سے اس قدرتومایوس ہوچکے ہیں کہ اب بیرون ملک بھی وہ اس کوشش میں ہیں کہ اسرائیلی حکمرانوں کو نیچا دکھائیں ۔ یہودیوں کا آپس میں لڑنا کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ مکافات عمل ہے۔ یہ تاریخی طورپرایک ناشکری قوم ہے اورانہوں نے ہمیشہ محسن کش رویہ اختیارکیے رکھا۔ یہی قوم تھی جس نے اپنی آنکھوں سے فرعون کوغرق ہوتے دیکھا اور پھربھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیرموجودگی میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بے پناہ انتباہ کے باوجود بچھڑے کی پوجا شروع کر دی ۔ یہی قوم تھی جس نے جمعۃ المبارک کا مقدس و محترم دن لینے کی بجائے فرعونیوں کامقدس دن یوم سبت لینے پراسرارکیا کیونکہ ذہنی غلامی ان کے رگ و پے میں رچ بس چکی تھی۔ اورپھر ہفتے کے دن میں بھی حیلوں بہانوں سے جائزکو نا جائزاور حرام کوحلال کرنے کی ناپاک کوششیں کیں۔ اس قوم یہود کی بداعمالیاں اور چیرہ دستیاں ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے کتنے ہی انیباء علیھم السلام کوقتل کیا اوریہاں تک کہ محسن انسانیتﷺ کے قتل کی سازش سے بھی بازنہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پربہت انعامات واکرام کیے لیکن یہ قوم بد ترین ثابت ہوئی اوراللہ تعالیٰ انہیں عالمی قیادت کے منصب سے معزول کردیا اور قیامت تک کی امامت اقوام عالم امت مسلمہ کوعطا کردی۔ قرآن مجید نے ان کے انجام پربہت پہلے سورۃ بقرہ میں تبصرہ کردیا تھا کہ “وَضُرِبَتْ عَلَيْـهِـمُ الـذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَآءُوْا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّـٰهِ ۗ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ كَانُـوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّبِيِّيْنَ بِغَيْـرِ الْحَقِّ ۗ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُـوْا يَعْتَدُوْنَ (61) ترجمہ : “اور ان پر ذلت اور محتاجی ڈال دی گئی اور انہوں نے غضب الہیٰ کمایا، یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔”۔ چونکہ ریاست اسرائیل کے آخری دن قریب آن لگے ہیں اسی لیے بنی اسرائیل آپس میں اسی طرح دست و گریبان رہیں گے، ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرتے رہیں گے، دنیاکے سامنے ایک دوسرے کوبرہنہ کرتے رہیں گے اور ان کے پشتیبان بہت جلد ان سے تنگ آکرانہیں تن تنہا چھوڑ دیں گے اوران کاعدم اتفاق ان کے انجام بد کا باعث بن جائے گا اور فلسطینی مسلمان خدائی کوڑا بن کران یہود پر برسیں گے انہیں نیست و نابود کردیں گے اوربہت جلدامت مسلمہ سرزمین قبلہ اول کی وارث بنے گی، ان شااللہ تعالیٰ۔
مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔

اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com