بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسرائیلی اخبار”دی پروشلم پوسٹ (27اپریل2023) “کی رپورٹ کے مطابق ریاست اسرائیل (Israel) کی پچھترویں (75) سالگرہ کے موقع پر اسرائیل کے بانی عسکری افراد نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ ریاست کے موجودہ حالات اگر اسی طرح رہے اور عدالتی اصلاحات پر عوام اورحکمرانوں میں کھینچا تانی جاری رہی تو صہیونیت کے خواب بکھر جائیں گے۔ اخباری اطلاع کے مطابق اسرائیلی یوم تاسیس کی تقریبات 25 اپریل کو زوال آفتاب کے بعد شروع ہوئی تھیں اور 27 اپریل کو چارشہریوں کی اندوہناک ہلاکتوں پر اختتام پزیر ہوئیں۔ یوم تاسیس کی ان تقریبات کے دوران وہ یہودی جو 1947-1949میں اسرائیل کے قیام کی خاطرعرب شہریوں کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرتے رہے انہوں نے واضح طورپر کہا ہے کہ حکومت اورعوام کے درمیان عدالتی اصلاحات پرکشمکش ریاست کوکمزورکرنے کا باعث بنے گی اورصہیونی خواب چکنا چورہوجائیں گے۔ “آموس ہورو” جوکہ عرب حکومتوں کے خلاف ان گوریلا کاروائیوں میں”ایلیٹ پالمافورس” میں کمانڈرکی حیثیت سے اپنا کردارادا کرتے رہے، انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک اسرائیل اس وقت بہت خطرناک موڑ پرپہنچ چکا ہے۔ “آموس ہورو” نے 14سال کی عمرمیں اس عسکری تنظیم میں شمولیت اختیارکی اور مستقبل میں اسرائیل کے بننے والے ایک وزیراعظم کی زیرنگرانی چھاپہ مارکارروائیوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس عسکری تنظیم کی چھٹی بٹالین میں تھے اورانہوں نے ان کاروائیوں کے بعد متعددعرب دیہاتوں پرقبضہ بھی کیا تھا۔ یہ ساری تاریخ انہوں نے بتانے کامقصد بھی بیان کیا کہ ریاست کے لیے بہت ساری قربانیاں ہیں جس کے بعد انہوں نے ریاست کے مخدوش اورغیریقینی مستقبل کی شکایتاً پیشین گوئی بھی کی۔
تل ابیب یونیورسٹی کی ایک بزرگ پروفیسر”انیتاشپیرا” جو تاریخ اسرائیل (Israel) پرمتعدد کتب لکھ چکی ہیں اور قومی نوعیت کے اعلی امتیازی اعزازات بھی حاصل کرچکی ہیں انہوں نے بھی صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے انہیں خدشات کا اظہارکیا ہے اورکہا ہے کہ مجھے ازحد پریشان کردینے والے آج کے حالات دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ ہم اپنے متفقہ مقاصد سے بحیثت قوم دستبردارہوچکے ہیں اور قومی مفادات اب ہمارے پیشٍ نظرنہیں رہے، انہوں نے برے بڑے مظاہروں پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل کی ترجیحات بدل چکی ہیں اوراسرائیلی ریاست کوکسی اورشکل میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ “ہائم عونی” جو ایک بحری جہازپر کسی دوسرے ملک سے اسرائیل میں آئے اوریہاں پہنچ کر اعلان قیام اسرائیل (Israel ) سے پہلے نجی ملیشیا میں کارروائیاں بھی کرتے رہے انہوں نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیام اسرائیل کے دوران ہمیں جنگ کے باوجود جنگی ماحول کا احساس نہیں ہوتا تھا لیکن اب ملک جن حالات سے گزررہا ہے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ دشمن ہمیں تباہ نہیں کرپایا جب کہ ہم تقسیم درتقسیم ہوکرخود کوتباہ کرنے پرتلے ہیں۔ “عونی” نے اپنے محب وطن ہونے کے ثبوت میں بتایا کہ وہ اپنے آبائی وطن سے بھاری ہتھیاروں کی بہت بڑی کھیپ اپنے ساتھ لائے تھے، انہوں نے “ارگن” اور”ای تیزل” نامی دو گروہوں میں بطورعسکری رکن کے کام کیا، انہوں نے بتایا کہ وہ ان گروہوں میں شامل ہونے والے سب سے کم عمر فرد تھے۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایام کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ بحری جہازسے اترتے ہی اس نے اپنے ہتھیاروں کا استعمال شروع کردیا تھا اور سولہ افراد پہلے ہی دن میں مارڈالے تھے۔ یہ اوراس طرح کے متعدد بانی افراد اپنی ریاست کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں اوریہودی صہیونی بزرگوں کی دوربین نگاہیں اپنی ریاست کی لٹیا ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ انہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بیان کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ کسی شرمندگی یا ندامت کا اظہارنہیں کیا بلکہ ان کارروائیوں کو اپنے اخلاص کے لیے بطورثبوت کے پیش کیا اوردنیا کو سیکھانے والا درس انسانیت پس پشت ڈال دیا۔
قرائن سے اندازہ ہوتاہے کہ “ایلیٹ پالمافورس”، “ارگن” اور”ای تیزل” وغیرہ نجی وغیرسرکاری یہودی ملیشیا تھیں، اوراس کے کارندوں نے عرب علاقوں میں گھس کر خوب ماردھاڑ اورقتل و غارت گری کا بازارگرم کیا۔ اسرائیل (Israel )کے قیام کا اعلان 1948میں ہوا جب کہ انہوں نے ایک سال قبل سے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغازکردیا تھا۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بتایا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ نے اس ریاست کی تاسیس کااعلان کیا تھا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اعلان سے بہت پہلے یہودیوں نے اپنی بدمعاشی سے عربوں کے علاقوں کوخالی کروانا شروع کردیا تھا۔ عالمی امن کے ٹھیکداروں کو یہودیوں کی دہشت گردی اورانتہا پسندی نظرنہیں آتی اس کے برعکس اپنے دین و ایمان اوراپنے جغرافیے کی حفاظت کرنے والے مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ صرف فلسطین میں ہی نہیں بلکہ افغانستان، کشمیراور افریقی ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی یکساں ہے۔ یہ قوم شعیب کے پیمانے ہیں جوآج بھی عالمی اداروں اوربین الاقوامی قیادتوں کے رویوں میں بخوبی مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔ جوقتل و غارت گری، ماردھاڑ، جلاؤگھیراؤ اوربمباری یہودی یا ہندویا سیکولراورلبرل افواج دوسرے ممالک میں گھس کر کریں تووہ امن کی خاطر ہیں اورپتھروں سے اپنا دفاع کرنے والے بچے اور خواتین دہشت گردقراردیے جاتے ہیں۔
اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کی مجوزہ عدالتی اصلاحات نے پورے ملک میں آگ لگارکھی ہے اوراکثرلوگوں نے اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے بھی احتجاجاً سبکدوشی اختیاررکھی ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ملک کوکمزورکرنے کی سازش ہے۔ اس وقت ہفتہ وارمظاہرے باقائدگی سے جاری ہیں جن میں ہزارہا لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ،شاہراہیں بند ہوجاتی ہیں، ذرائع حمل و نقل جامد ہوجاتے ہیں، معاشی سرگرمیاں معطل ہوجاتی ہیں اورانہوں نے اپنے جھنڈوں پرنعرے لکھے ہوتے ہیں کہ یہ عدالتی اصلاحات بہت خطرناک اورغیرجمہوری ہیں۔خطرے سے قبل آگاہ کرنے والے ایک عالمی ادارے(Global Risk Assessment Agency)نے اپنی ایک رپورٹ میں آگاہ کیا ہے کہ یہ عدالتی اصلاحات اسرائیل (Israel ) کی ریاست کے لیے بہت خطرناک معاشی واقتصادی حالات کا باعث ہوں گی۔ جودوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے پہلے خود اس میں گرتا ہے کے مصدااق پورے عالم انسانیت کوسیکولرجمہوریت کے بھاڑمیں جھونکنے والے یہودی اسی جمہوری تماشے کے نتیجے میں اپنے اختتامی انجام کوپہنچا چاہتے ہیں ,انشااللہ تعالیٰ۔
اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com