راستے بند نہ کرو

تحریر: جناب ڈاکٹر فرخ شہزاد

رسول اکرم ﷺ (Holy Prophet ﷺ) نے ایک سے زائد احادیث میں راستے سے پتھر، کانٹے یا ہڈی ہٹا دینے کی تلقین فرمائی تاکہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان احادیث کے ذریعے مسلمانوں کو قیامت تک کے لئے راستوں کے متعلق ایک ضابطہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ اب اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی کو راستے میں پتھر دکھائی دے اور وہ اسے راستے سے نہ ہٹائے اور یوں راستے کو صاف کرنے سے باز رہے اور دوسروں کو تکلیف پہنچائے۔ اگر راستے میں ایک پتھر موجود ہواور اسے ہٹانے کا حکم دیا گیا تو ڈھیر سارے پتھروں کے بارے کیا حکم ہوگا؟ اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر میں اس ضابطہ پر عمل نہ کروں تو کیا مجھے عاشق رسول اللہ ﷺ ہونے کا دعویٰ کرنے کا حق ہے؟ ہم رسول اللہﷺ(Holy Prophet ﷺ) کے حکم کی نافرمانی میں بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ہم راستوں میں پتھر پھینکتے ہیں بلکہ گزرنے والوں پر پتھراؤ کرتے ہیں، ہم مجسم پتھر بن کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم لوگوں کو زخمی کرتے ہیں، ہم گاڑیوں کو تباہ کرتے ہیں انہیں آگ لگا دیتے ہیں، ہم پولیس کے عملے پر حملہ کرتے ہیں، ہم سڑکیں بند کرکے جلسے کرتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں، ہم کئی کئی دن راستے بند کرکے عرس کی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ ہماری ان کاروائیوں کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ گزرنے والے دکھی ہو جاتے ہیں، لوگ زخمی ہو جاتے ہیں اور کئی زخموں کی تاب نہ لا کر مر جاتے ہیں۔ لوگ مریضوں کو ہسپتال لے جا رہے ہوتے ہیں اور طویل اور ٹریفک جام ہوئے راستوں سے گزرنے کی وجہ سے مریض راستوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔ جو ہسپتال پہنچ جاتے ہیں وہ طویل راستے طے کرنے کی وجہ سے نڈھال ہو چکے ہوتے ہیں۔ بچے سکولوں کونہیں پہنچ پاتے۔ ملازمین کے لئے دفتروں تک پہنچنا بہت مشکل ہو جاتاہے۔ جن لوگوں کے کاروبار ان راستوں پر ہوتے ہیں ان کے کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔ جب یہ کاروائیاں کئی شہروں میں پھیل جائیں تو پورے پورے شہر جام ہو جاتے ہیں۔ سپلائی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ملک کو روزانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ کاروبار تباہ ہونے لگتے ہیں۔ ترقی کا سفر تنزلی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ایک طرف قوم کا مالی و جانی نقصان ہوتا ہے تو دوسری طرف ملکی سطح پر تباہی پھیل جاتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ رسول اللہ ﷺ کے حکم “راستے سے پتھر ہٹا دو” پر عمل نہ کرنے کا انجام ہے۔ یہاں حکم عدولی ہی نہیں کی جاتی بلکہ حکم کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کرنے کے بعد میں اس دعویٰ میں سچا ہوں کہ میں عاشق رسول ﷺ ہوں؟ رسول اکرمﷺ (Holy Prophet ﷺ) امن کے پیامبر تھے۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے پیروکاروں اور اسلام کے علمبرداروں کے لئے ہر گز اور ہر گز یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ پتھراؤ کریں، دنگا و فساد کریں، املاک کو نقصان پہنچائیں، ڈنڈے گھمائیں اور برسائیں اورگولیاں چلائیں۔
رسول اکرم ﷺ نے مسلمان کی تعریف یوں بیان کی ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں “۔ اس حدیث کی روشنی میں کیا ایک مسلمان کیلئے وہ تمام کاروائیاں کرنے کا جواز نکلتا ہے جن کا اوپرذکر کیا گیا۔ افسوس ہم اسلام کا علم بلند کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن عملاً اسلام کی رسوائی کا سبب بنتے۔ انتہائی دُکھ کی بات ہے کہ ہم عشق رسول ﷺ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہماری کاروائیاں رسول اکرم ﷺ کے لئے اذیت کا سبب بنتی ہیں۔ کیا رسول اکرم ﷺ کی ذات کو اذیت دینے کے بعد ہمارے لئے جنت میں کوئی جگہ بنتی ہے؟ ہم دنگا اور فساد کے ذریعے ساری دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ یہ سب اسلام کا حصہ ہے۔ کافر اس پر ہنستے ہیں اور اسلام دشمنی میں مزید آگے بڑھتے ہیں۔ وہ اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دیتے ہیں۔ سوچیں کیا ہم اسلام دوست ہیں یا اسلام دشمن؟
ہمارے بہترین عمل اور اخلاق کی وجہ سے اسلام کو ساری دنیا میں تیزی سے پھیلنا چاہیے تھا لیکن ہمارا برا عمل اور اخلاق اسلام کے پھیلاؤ میں رکاوٹ کا سبب بنا ہوا ہے۔ ہم کافروں کو اسلام دوست بنانے کی بجائے اسلام دشمن بنا رہے ہیں۔ ہم اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ ہم کافروں کو رسول اکرم ﷺ کی تضحیک کرنے پر اُکسا رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کر تے ہیں وہ سب شیطان کی پیروکاری ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر رسول اکرم ﷺ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو کیا آپؐ ہمیں وہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے دیتے جو ہم کر رہے ہیں؟ ہمیں تصور کرنا چاہیے کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہمیں ایسا کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ ہمیں رسول اکرم ﷺ کی ذات سے شرمندہ ہو کر یہ اقرار کرنا چاہیے کہ آئندہ ایسی کاروائیاں نہیں کریں گے۔ ہمیں اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔

Dr. Farukh Shahzad

ڈاکٹر فرخ شہزاد

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔