خلیفہ راشد:حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
21رجب یوم وفات کے موقع پر خصوصی تحریر
ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)
drsajidkhakwani@gmail.com
رات گئے ایک شخص امیرالمومنین کے دروازے پر دستک دیتا ہے اورآدھی دنیا کا حکمران اپنے گھرسے باہر نکل آتاہے، وہ شخص اپنے ہاتھ میں پکڑی اشرفیوں کی بھری تھیلی امیرالمومنین کی طرف بڑھاتا ہے اورعرض کرتا ہے اتنے سو میل دور فلاں بستی سے آیا ہوں اور یہ مال زکوۃٰ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، امیرالمومنین نہایت افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ مال راستے میں تقسیم کردیا ہوتا میرے پاس لانے کی کیا ضرورت تھی؟؟، نووارد عرض کرتا ہے یا امیرالمومنین سارے راستے آواز لگاتا آیا ہوں کہ لوگو زکوۃٰ کامال ہے کوئی تو لے لو، لیکن سینکڑوں میل کے اس سفر کوئی زکوۃٰ لینے والا نہ تھا۔ یہ امیرالمونین حضرت عمربن عبدالعزیزتھے جن کی خلافت اسلامیہ میں اس قدر امن و امان اورخوشحالی تھی کہ سینکڑوں میل تک اشرفیوں سے بھرا ہوامسافر بلاخوف و خطر سفرکرتا رہااور اسے کوئی زکوۃٰ کا مستحق بھی نہ ملا اور حکمران ایسا کہ جس کے گھرپر کوئی پہرہ نہ تھا نصف شب سائل کے دروازہ بجانے پر کسی نوپ دار نے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی بلکہ حاکم وقت خود بستر سے بیدارہوا اور آنے والے کو خوش آمدید کہا۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ(Hazrat Umar bin Abdul Aziz) کی کنیت ”ابوحفص“ تھی، بنوامیہ کے آٹھویں حکمران تھے، سلیمان بن عبدالملک کے بعد تخت نشین ہوئے اوراپنی عمدہ وپاکیزہ سیرت اورراست روی وپاک دامنی کے باعث مورخین کے ہاں خلفائے راشدین میں شمار کیے جاتے ہیں۔61ھ مدینہ منورہ میں جنم لیا، ننھیال فاروقی خاندان سے متعلق تھا۔ جوارروضہ اقدس کے باعث جہاں بچپن میں ہی قرآن پاک حفظ کرلیا وہاں عبداللہ بن عمرؓ اورانس بن مالک ؒسمیت متعدد صحابہ و تابعین کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت بھی میسر آگئی۔ والد محترم نے بھی تربیت میں کمی نہ ہونے دی، ایک باربالوں کی آرائش کے باعث جماعت میں غیرحاضری ہوئی تو سخت گیر باپ نے عنفوان شباب میں قدم رکھنے والے نوخیز حضرت عمربن عبدالعزیزؒکے بال ترشوا دیے۔ شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے، منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے اس لحاظ سے شباب نہایت ہی نفاست و خوش پوشاکی میں گزرا، خلیفہ بننے تک اعلی معیارزندگی کے شاہانہ طوروطریق وطیرہ خاص رہے۔ عطریات و خوشبوئیات اور لباس و پہناوے میں حتی کہ شاہی خاندان کے نوجوان بھی مات تھے۔ نازونعم کے باوجود نہ صرف یہ کہ کبائر سے ہمیشہ مجتنب رہے بلکہ عبادات میں ذوق و شوق اس پاکیزہ صفت نوجوان کا وصف خاص رہا۔ شاید اسی کے باعث مدینہ منورہ جیسے مقدس ترین شہرکی خدمت بطورگورنری بھی آپ کے حصے میں آئی،706ء تا 713ء تک کم و بیش چھ سالہ اس دورمیں مسجد نبوی کی تعمیر نو آپ کا شاندار کارنامہ ہے، جبکہ عدل و انصاف اور اہالیان مدینہ منورہ سے مہمانوں جیسے برتاؤ سے رعایا کے دل جیت لیے۔ ولایت مدینہ منورہ کے دوران آپ نے دس قابل ترین افراد کی ایک مجلس مشاورت بنائی تھی جس کے پاس وسیع انتظامی و عدالتی اختیارات بھی تھے۔ درحقیقت آپ کے پیش رو حکمرانوں نے اہل مدینہ سے حجازتا کربلا جو سلوک کیا تھا،حضرت عمربن عبدالعزیزؒ نے اس کے مداواحسن میں تاریخ ہی بدل ڈالی۔
سلیمان بن عبدالمک نے حضرت عمربن عبدالعزیزؒ (Hazrat Umar bin Abdul Aziz) کواپنا جانشین مقررکیا تھا لیکن آپ کو اس کی اطلاع نہیں تھی۔718ء میں خلیفہ کے انتقال کے بعد مہر بند وصیت پر شاہی عمائدین سلطنت واراکین خاندان خلافت سے بیعت لی گئی اور جب اس لفافے کو کھولاگیا تو حضرت عمربن عبدالعزیزؒکا نام لکھا پایا۔ اس فیصلے پر اکثر افراد شاہی خاندان نے اظہارناپسندیدگی کیا لیکن شاہی چوب داروں نے زبردستی بیعت لی اور یوں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ(Hazrat Umar bin Abdul Aziz) تخت نشین ہوئے۔ تخت نشینی کے بعد مسجد میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہ چاہوتوکسی اور کو اپنا حکمران بنا لولیکن عوام کی اکثریت نے خوش دلی سے آپ کی خلافت کو قبول کرلیاجس سے ایک شورائی وجمہوری حکومت کا آغاز ہوا اور آپ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓکے اولین خطبہ خلافت سے ملتا جلتا خطبہ ارشاد فرمایا جسے تاریخ نے سنہرے حروف سے تحریر کیا ہے۔ درحقیقت یہی خطبہ ایک بار پھر امت مسلمہ کوملوکیت سے خلافت کی طرف گامزن کرنے والی دستاویزثابت ہوا۔ بارخلافت سے زندگی بالکل تبدیل ہو گئی اور نفاست و خوش لباسی ساری کی ساری فقرو درویشی میں تبدیل ہو گئی۔ خلافت کے بعد سواری کے لیے اعلیٰ نسل کے گھوڑے پیش کیے گئے لیکن یہ کہہ کر لوٹا دیے کہ میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے، دوران سفرایک نقیب آگے کو چلا تو اسے ہٹا دیا کہ کہ میں بھی ایک عام سا مسلمان شہری ہوں، سلیمان بن عبدالملک کے ترکے پر کل خاندان بنوامیہ کی نظر تھی لیکن ایک حکم شاہی کے ذریعے گزشتہ حکمران کی ساری جائداد ونقد بیت المال میں جمع کرادیے، اہل بیت نبوی کی محبت و عقیدت میں باغ فدک، جوایک عرصے سے گھمبیرمسئلہ تھا اورآپ کے پیش روحکمرانوں نے اس پر غاصبانہ قبضہ کررکھا تھا، اس کے اصل ورثاء خاندان بنوہاشم کو لوٹا دیا، اس کے علاوہ بھی بنوامیہ نے آل علی کی جن جن جائدادوں کو زبردستی اپنی تحویل میں لے رکھا تھا انہیں واگزارکرایا اور ان کے اصل مالکان کو لوٹا دیا، اورخطبہ جمعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شان میں جو گستاخیاں کی جاتی تھیں انہیں اپنی خلافت کے روزاول سے بند کرادیا۔
مسلمان افواج کے جہاداسلامی کے نتیجے میں سرحدات پر فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ آرمینیا پراسلامی افواج نے حملہ کیا اوراس شہر کو فتح کرلیا۔ مسیحیوں کے اس شہرکے پادری نے ایک خط خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ(Hazrat Umar bin Abdul Aziz) کو لکھا جس میں شکایت کی کہ آپ کی افواج نے دعوت دین اور ذمی کی پیشکش کیے بغیرحملہ کرکے شہر کومفتوح کرلیاہے، جو کہ اسلامی روایات وتعلیمات کے صریحاََخلاف ہے۔ ہرکارہ جب دارلخلافہ میں پہنچا تو لوگوں سے پوچھا قصرشاہی کہاں ہے؟ اسے بارش کے بعد کچی دیوارکی لپائی کرنے والے ایک مزدورکی طرف اشارہ کرکے بتایا گیا کہ یہ مسلمانوں کاحکمران ہے۔ اس نمائندے نے سیڑھی پر چڑھے ہوئے امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒکی طرف خط بڑھا دیا، گارے سے بھرے ہوئے ہاتھ صاف کرکے خط پڑھ کر وہیں کھڑے کھڑے خط کی پشت پرسپہ سالار کے نام صرف دوجملے لکھے”فوج سے کسی کو قاضی مقررکرو اوراسکے سامنے معاملہ پیش کرکے فیصلے پرعملدرآمد کرو“۔ امیرالمومنین نے کہا کہ یہ خط سپہ سالار کو دے دینا۔ ہرکارہ سمجھاکہ حکمران نے مذاق کیاہے۔ بہرحال اس نے آرمینیا پہنچ کراپنے پادری کوخط پہنچا دیا۔ پادری بھی یہی سمجھاکہ ان کے ساتھ سنگین استہزا کیا گیاہے۔ وہ خط مسلمانوں کے سپہ سالار کودیا گیا۔ امیرالمومنین کے دستخط دیکھتے ہی اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔ اسی وقت ایک عالم دین سپاہی کو قاضی مقرر کیا۔ قاضی نے بعد اززوال آفتاب فریقین کو طلب کرلیا۔ ایک کٹہرے میں فاتح اور دوسرے میں مفتوح برابری کی بنیاد پر کھڑے تھے۔ مفتوح کے حق میں فیصلہ ہوا اور قاضی نے حکم دیا کہ فاتح افواج غروب آفتاب سے قبل شہر خالی کردیں۔ شہرسے نکلنے والاآخری سپاہی وہی قاضی تھا جو نگرانی کررہا تھا کہ جاتے جاتے کسی فوجی کے ہاتھوں کسی شہری کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ شہریوں کی کثیر تعداد مسلمان فوجیوں کے کپڑے کھینچ کھینچ کر انہیں بلا رہی تھی تم لوٹ آو اور تم ہی حکومت کرو کیونکہ تم رحم دل اور عدل و انصاف والے ہو، ہمارے حکمران توہم پر ظلم و تشددکرتے ہیں۔ اس واقعے کی ایک ایک سطر سیکولرازم کے دیے گئے نظام حکمرانی، نظام عدالت، سیکولرافواج کی غنڈہ گردی، مزاکرات کی میزیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے سیروں کے حساب سے اٹھائے گئے کاغذات کا منہ چڑارہی ہے۔ ابھی بھی کچھ نام نہاد دانشور عصرحاضرکو ترقی یافتہ عہد روشن خیالی کہتے ہیں اورمسلمانوں کے دوراقتدارمیں کیڑے نکالتے ہوئے ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں۔
حضرت عمربن عبدالعزیزؒ(Hazrat Umar bin Abdul Aziz) نے اپنی خاندانی و نجی زندگی بھی مکمل طورپر شریعت کے تابع کر دی اور خلفائے بنوامیہ کی بجائے خلفائے راشدین کے شعارکو اپنایا۔ خلافت کے بعد اپنی زوجہ کو حکم دیا کہ اپنے زروجواہرات و زیورات بیت المال میں جمع کرادو، اتنی بڑی ریاست اور شاید اس وقت دنیا کی سب سے بڑی و متمدن ریاست کے حکمران کے گھر کوئی خادمہ و ملازمہ نہ تھی بلکہ سلطنت کی خاتون اول اپنی ہاتھوں سے ہی گھرکا سارا کام سرانجام دیتی تھیں، جبکہ یہ خاتون اول ”فاطمہ“خلیفہ عبدالملک بن مروان کی بیٹی اور دو خلفا ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کی بہن تھی۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے بیت المال پر خلیفہ کے ذاتی تصرف کو کلیۃ ختم کردیا اور سیاسی رشوت کے طورپر دیے جانے والے شاہی عطیات و تحائف پر پابندی لگادی۔ شاہی خاندان کے وظائف بند کرکے بیت المال کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا اس اقدام سے شاہی خاندان کو بے حد تکلیف ہوئی یہاں تک کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے عام اعلان کرا دیا کہ شاہی خاندان کے کسی فرد نے کسی شہری کی جائداد اگر زبردستی غصب کررکھی ہے تو وہ اس پر دعویٰ کرے اسے انصاف فراہم کیا جائے گا۔ اس وقت تک نومسلموں سے بھی اس لیے جزیہ وصول کیا جاتا تھا کہ وہ جزیہ کے ٹیکس سے بچنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں، حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے اس ظالمانہ ٹیکس کے خاتمے کااعلان کیا اور اس کےعلاوہ بھی رعایا پر ناجائز لگان ختم کر دئے گئے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں فوری طورپر ریاست کی آمدنی میں بہت زیادہ کمی ہوگئی جسے آپ نے سرکاری اخراجات میں کٹوتی سے پوراکیا جبکہ دوررس نتائج بہت جلد نمودارہونے لگے اور عوام میں خوشحالی عام ہوگئی اور صرف ایک سال بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ صدقات لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتاتھا۔ فلاح عامہ کے لیے حضرت عمربن عبدالعزیزؒنے جگہ جگہ سرائیں بنائیں اور مسافروں کودودنوں تک ریاست کی طرف سے کھانا مفت فراہم کیا جاتا تھا۔ حکمران کی اس خوب سیرتی کا اثربہت دور دور تک محسوس کیا گیا یہاں تک کہ سندھ میں راجہ داہر جیسے حکمران کا بیٹا ”جے سنگھ“ بھی حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ تدوین وتحریرحدیث نبویﷺآپ ہی حکم سے شروع کی گئی تھی، جو آپ کا لازوال علمی کانامہ ہے۔ آپ نے اس وقت کے علما کو خط لکھا کہ میں دیکھ رہاہوں اسناد طویل ہوتی جارہی ہیں اور علم (حدیث نبویﷺ)مٹتاچلا جا رہا ہے،پس تم اس کو تحریر کر لو۔ امیرالمومنین کے اس خط کے بعد سے احادیث کی کتابت کا باقائدہ آغاز ہوا جو بعد میں ایک زمانے کے اندر ایک بہت بڑے فن اور پھر قانون اسلامی و فقہ و شریعت کی بنیاد بنا۔
دشمنوں نے سر اٹھایا کہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ(Hazrat Umar bin Abdul Aziz) چونکہ فقیر منش حکمران ہیں اس لیے ان کی شرافت سے فائدہ اٹھایا جائے، چنانچہ باغیوں نے آذربائجان میں ہزاروں معصوم مسلمانوں کا خون کر ڈالا۔ امیرالمومنین نے اپنے سپہ سالارابن حاتم کو چڑھائی کا حکم دیا ،جنہوں اسلامی سپاہ کے ساتھ ایک بھرپو کاروائی کے ذریعے باغیوں کو بھاری نقصان پہنچا کر ان کا منہ موڑ ڈالا۔ دشمنوں کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہونے والا حضرت عمربن عبدالعزیزؒاپنی رعایا اورسگی اولاد پر بے حد شفقیق ومہربان تھا، اتنا زیادہ کہ انہیں دوزخ کی آگ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا تھا۔ ایک بار اپنی چہیتی بیٹی“آمنہ“کو بلایا وہ محض اس لیے باپ کے سامنے نہ آسکی کہ اس وقت اس کے پاس مناسب ستر پوش کپڑے موجود نہ تھے جو بعد میں اس کی خالہ نے اسے خرید کر فراہم کیے۔ حضرت عمربن عبدالعزیزؒکسی طرح کا تحفہ یا ہدیہ بھی قبول نہ کرتے تھے ایک بارسیبوں کا ایک ٹوکرا پیش کیا گیا، دیکھ کر بہت تعریف کی لیکن قبول کرنے سے انکار کر دیا، سائل نے کہا کہ تحفہ قبول کرنا سنت نبوی ﷺ ہے جس پر جواب دیا کہ محسن انسانیت ﷺکے لیے تحفہ تھا مگر میرے لیے رشوت ہے۔ کم و بیش ڈھائی سالہ اقتدارخلافت راشدہ خود خاندان بنوامیہ کے لیے درد سر بن گیا تھااور ان کے عیش وعشرت وچیرہ دستیاں ماند پڑ چکی تھیں چنانچہ ایک غلام کو سات ہزار کی رقم دے کر امیرالمومنین کو زہر دے دیا گیا، معلوم ہونے پر غلام سے رقم لے کر بیت المال میں جمع کرادی اور اسے آزاد کرکے حکم دیا یہاں سے فوراََنکل جاؤ کہ مباداکوئی اسے قتل کردے۔25رجب 101ھ کو اس دار فانی سے کوچ کرکے شہادت کی منزل مراد حاصل کر لی اورترکہ میں کل سترہ دینار چھوڑے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مسلمانوں نے ایک ہزارسالوں تک ازغرب تا شرق کل دنیا پر حکومت کی ہے۔ ایشیاء، یورپ اور افریقہ سمیت دوردراز کے جزیرے اور وادیوں میں ہماری آذانیں گونجتی تھیں۔ مسلمانوں کے اس طویل ترین دوراقتدارکی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن عدل و انصاف کا دوردورہ اس کی اہم ترین وجہ ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے اس وقت دنیا میں قیادت کے شانداراوراانسانیت و خوف خدا سے مستعارشعائراقتدارمتعارف کرائے جب یورپ کے بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہ اجڈ، گنواراور اپنی جہالت و لاعلمی پر فخرکیا کرتے تھے اور مذہبی طبقات و مفکرین سے کئی کئی قدم دورتک درندوں سے بھی بدتر پھوٹنے والی بدبو کی سڑاند اٹھاکرتی تھی۔ ایران اور ہندوستان جیسی عظیم ریاستوں میں سگے رشتوں تک کا تقدس عنقا تھا۔ امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ میں بہت جلد وہ عہد رفتہ پھر عود کرآنے والاہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرایا کرتی ہے،ان شااللہ تعالیٰ۔

اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
drsajidkhakwani@gmail.com

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔