رسول اکرم حضرت محمد ﷺ کا آخری تحریری ہدایت نامہ

تحریر: جناب ڈاکٹر فرخ شہزاد

آنحضرت محمدﷺ (Prophet Muhammad PBUH) نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل حضرت عمر و ابن حزم ؓ کو یمن میں گورنر مقرر فرمایا اور انہیں کچھ تحریری ہدایات دیں۔
یہ ہدایت نامہ حضرت عمرو بن حزم ؓ کے خاندان میں نسل در نسل محفوظ چلا آتا تھا۔ یہ تحریر امام ابو جعفر دیبلیؒ (م ۲۲۳ھ) کو اس خاندان سے منتقل ہوئی اور انہوں نے مکاتیب النبیﷺ کے نام سے اپنے ایک مجموعہ میں شامل کیا ہے۔ یہ ہدایت نامہ بہت معمولی فرق کے ساتھ احادیث اور تاریخ کی اکثر کتابوں میں محفوظ ہے۔ یہ آنحضرت ﷺ (Prophet Muhammad PBUH) کی آخری تحریری ہدایات ہیں۔ یہ انتہائی مستند ہیں۔ تحریر اور زبانی سند کے لحاظ سے یہ قطعی طورپرحضور ﷺ کی جاری کردہ ہدایات ہیں۔ ان ہدایات سے واضح ہوتا ہے کسی حاکم کی نگاہ میں کن امور کو اولیت حاصل ہونی چاہیے اورحاکم کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے۔ ذیل میں اس ہدایت نامہ کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلان ہے “اے لوگو! جو ایمان لائے ہو عہد و پیمان کو پورا کرو”۔
عمرو بن حزم انصاری کو یمن بھیجنے کے موقع پر نبیﷺ کی جانب سے یہ ہدایات عمرو بن حزم ؓ کو دی جارہی ہیں۔
۱۔ “وہ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ (عمر و بن حزم) اپنے تمام معاملات و نظام میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ کیونکہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو (اس سے) ڈریں اور جو خوبی کے ساتھ اپنے کام انجام دیں “۔
۲۔ “وہ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ (حکومت کے) واجبات اسی طرح وصول کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے”۔
۳۔ “لوگوں میں بھلائی کی تلقین کرے اور اسی کا حکم دے”۔
۴۔ ” لوگوں کو قرآن سکھائے اور ان میں قرآن کی سمجھ پیدا کرے”۔
۵۔ ” اور لوگوں کو اس بات سے منع کرے کہ کوئی شخض ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ لگائے”۔
۶۔ “اور لوگوں کو (صاف طور پر) باخبر کردے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور کیا فرائض ہیں “۔
۷۔ “لوگوں کو حقوق دینے میں نرمی کا رویہ اختیار کرے، البتہ اگر کوئی ظلم کرے تو اس پر سختی کرے، اللہ نے ظلم کو نا پسند فرمایا ہے، چنانچہ اس کا ارشاد ہے “سنو! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے”۔
۸۔ ” لوگوں کو جنت کی بشارت دے اور جنت دلانے والے اعمال کی تبلیغ کرے”۔
۹۔ “اور لوگوں کو جہنم اور جہنم والے اعمال سے ڈرائے”۔
۱۰۔ “اور لوگوں کی دلداری کرے تاکہ وہ دین کو سمجھنے کے لیے آمادہ ہوں “۔
۱۱۔ “اوروہ لوگوں کو حج کے مناسک، اس کے طریقے اور اس کے فرائض سکھائے اور اللہ کے احکام کی تعلیم دے اور حج اکبر اور حج اصغر (عمرہ) سکھائے”۔
۱۲۔ ا”ور لوگوں کو اس بات سے منع کرے کہ وہ ایک چھوٹے سے کپڑے میں نمازادا کریں “۔ البتہ اگر کپڑا بڑا ہواور اسکے دونوں کنارے دونوں شانوں پر ڈال لیے جائیں توایسا کیا جا سکتا ہے”۔
۱۳۔ ” (نماز میں) کوئی شخص ایک کپڑا پہن کر اس طرح اکڑوں نہ بیٹھے کہ اس کی ستر کھلی ہوئی ہو”۔
۱۴۔ ” اگر کسی نے اپنی بال بڑھا کر گدی پر لٹکائے ہوں تو ان کا (نماز میں) جوڑا نہ باندھے”۔
۱۵۔ ” اور لوگوں کے درمیان اگر (اختلاف ختم کرنے کے لیے) صلح ہو رہی ہے تو لوگوں کو اس بات سے منع کرو کہ وہ (اپنے اپنے) قبیلہ یا (اپنے اپنے) خاندان کا نعرہ لگائیں۔ ان کو صرف اللہ وحدہ لا شریک کا نعرہ لگانا چاہیے لیکن جو لوگ اللہ کا نعرہ نہ لگائیں اور خاندان اور قبیلوں کی طرف بلائیں تو ان کو تلوار کے ذریعے سے جھکایا جائے۔ یہاں تک کہ وہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کا نعرہ لگائیں “۔
۱۶۔ “اوروہ لوگوں کو حکم دے کہ وہ وضو میں اپنے چہروں کو اچھی طرح دھوئیں، ہاتھوں کی کہنیوں اور پیروں کے ٹخنوں تک پانی پہنچائیں۔ وہ اپنے سروں پر اس طرح مسح کریں جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے”۔
۱۷۔ “اور آپ نے (حضرت محمد ﷺ (Prophet Muhammad PBUH) نے) اس (عمرو ابن حزم) کو حکم دیا کہ وہ نماز یں وقت پر ادا کرے، رکوع اور خشوع (قلبی جھکاؤ) کو مکمل کرے۔ نماز فجر اندھیرے میں ادا کرے اور سورج کے مغرب کی جانب جھکنے سے قبل نماز ظہر ادا کرے اور عصر کی نماز اس وقت ادا کرے جب دھوپ زمین سے واپس ہونا شروع ہو اور رات کی آمد کے وقت مغرب ادا کرے اور مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ ستارے ظاہر ہو جائیں اور نماز عشاء رات کے پہلے حصہ میں ادا کرے اور اس کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو نماز کے لیے لپک کر پہنچے اور نماز جمعہ کے لیے جاتے وقت غسل کرے”۔
۱۸۔ ” اور اسے حکم دیا ہے کہ وہ مال غنیمت میں سے اللہ کا مقرر کردہ خمس وصول کرے “۔
۱۹۔ “اور زکٰوۃ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں پر جو فرض کیا ہے اسے وصول کرے”۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے۔” جس زمین کو دریایا بارش نے سیراب کیا ہو اس کی پیداوار کا دسواں حصہ اور جس کو ڈول (مصنوعی آبپاشی) سے سیراب کیا گیا ہو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ۔ ہر دس اونٹوں پر دو بکریاں اور ہر 20اونٹوں پر چار بکریاں اور ہر چالیس گائیوں پر ایک گائے اور ہر تیس گائیوں پر ایک نر یا مادہ یک سالہ بچہ۔ اور ہر چالیس چرنے والی بھیڑوں پر ایک بکری۔زکوٰۃ کے سلسلے میںیہ اللہ تعالیٰ کا مقررکردہ ضابطہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر نافذ کیا ہے۔ جو شخص اس سے زیادہ دے تو وہ خود اس کے لیے بہتر ہے”۔
۲۰۔ “یہ کہ اگر کوئی یہودی یا عیسائی مخلصانہ طور پرمسلمان ہو جائے اور دین اسلام اختیار کرے تو وہ مومنوں میں سے ہو گا۔ اس کے وہی حقوق ہوں گے جو اہل ایمان کے ہوتے ہیں اور اس کے فرائض بھی انہی جیسے ہوں گے اور جو نصرانیت یا یہودیت پر قائم رہے تو اس کو اس کے دین سے پھیرنے کے لیے سختیوں میں نہ ڈالا جائے”۔
۲۱۔ “اور ہر بالغ مر د یا عورت آزاد یا غلام سے ایک پورا دیناریا اس کی قیمت کے مساوی کپڑے بطور جزیہ وصول کیے جائیں گے۔ جو شخص یہ (جزیہ) ادا کرے گا تو وہ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے امان میں ہو گا اور جو اس کو دینے سے انکار کرے گا تو وہ اللہ، اس کے رسول ؐ اور مومنین سب کا دشمن سمجھا جائے گا”۔
ماخوذ از۔ مجموعہ مقالات و مکتوبات مولانا رضی مظہر ندوی مرحوم

Dr. Farukh Shahzad

ڈاکٹر فرخ شہزاد


اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔