اسلام اورسیکولرازم کاتصور”حقوق”

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دین اسلام کا آغازحضرت آدم علیہ السلام سے ہوا۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء علیھم السلام اس دنیا میں مبعوث ہوئے، ان سب کادین بھی اسلام ہی تھا اوران کے ماننے والے مسلمان کہلاتے تھے۔” هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ(سورۃ حج،آیت ۷۸)”ترجمہ”اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل بھی تمہارانام مسلمان رکھا تھا اوراس(قرآن مجید) میں بھی (مسلمان ہی رکھاہے)، البتہ شریعتیں مختلف تھیں۔ ایک وقت میں ایک شریعت نازل ہوتی اورایک مدت تک اس پرعمل جاری رہتا، حالات و حوائج میں تبدیلی کے باعث انسانی ارتقاء کے نتیجے میں شریعت اسلامیہ میں نسخ واقع ہوجاتا یا پھرنئی شریعت نازل کردی جاتی لیکن دین وہی رہتا اوراس کی پیروی کل امت پرلازم ہوتی تھی۔ “دین” عقائد اوراخلاقیات کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے جب کہ “شریعت” معاملات سے بحث کرتی ہے، چنانچہ پہلی امت سے آخری امت تک عقائد اوراخلاقیات یکساں ہی رہے ہیں جب کہ معاملات میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں ۔ شریعت کی اصطلاح میں معاملات کے لیے “احکامات” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے پس مختلف شریعتوں میں احکامات مختلف رہے ہیں جیسے بنی اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس تھاجب کہ امت مسلمہ کا قبلہ مسجد حرام قراردے دیا گیا۔ آخری کتاب اوراس کی شریعت نے گزشتہ تمام کتب وشرائع کومنسوخ کردیا اوراب تاقیامت صرف شریعت محمدی پرعمل ہی باعث نجات ہوگا۔
گمراہی کا کل سامان اگرچہ ابلیس اپنے ساتھ لایا لیکن سیکولرازم کا باقائدہ آغاز حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم سے ہوا۔ وہ دہرے معیارکی حامل قوم تھی، اس قوم کے لینے کے پیمانے اوردینے کے پیمانے جدا جدا تھے۔ ناپ تول میں کمی کرتے تھے جب کہ مال لیتے ہوئے پورا تول لیتے تھے اورفروخت کرتے ہوئے کم تولتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا “فَأَوۡفُواْ ٱلۡڪَيۡلَ وَٱلۡمِيزَانَ وَلَا تَبۡخَسُواْ ٱلنَّاسَ أَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تُفۡسِدُواْ فِى ٱلۡأَرۡضِ بَعۡدَ إِصۡلَـٰحِهَا‌ۚ ذَٲلِڪُمۡ خَيۡرٌ۬ لَّكُمۡ إِن ڪُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (سورہ اعراف٨٥) ترجمہ “لہذا وزن اور پیمانے پورے کرواورلوگوں کوان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دواورزمین میں فساد برپا نہ کرواسی میں تمہاری بھلائی ہے اگرتم واقعی مومن ہو”۔ اس قرآنی آیت کا آخری حصہ سے گمان ہوتا ہے کہ قوم شعیب اہل ایمان میں سے تھی یعنی مسلمان تھی لیکن گمراہ ہوچکی تھی اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پرحضرت شعیب علیہ السلام اوران کی قوم کے درمیان جومکالمات نقل کیے ہیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قوم اللہ تعالیٰ سے متعارف تھی۔ اس قوم نے ایک بار یہ بھی کہا کہ” قَالُواْ يَـٰشُعَيۡبُ أَصَلَوٰتُكَ تَأۡمُرُكَ أَن نَّتۡرُكَ مَا يَعۡبُدُ ءَابَآؤُنَآ أَوۡ أَن نَّفۡعَلَ فِىٓ أَمۡوَٲلِنَا مَا نَشَـٰٓؤُاْ‌ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ ٱلۡحَلِيمُ ٱلرَّشِيدُ (سورۃ ہود٨٧) ترجمہ:”انہوں نے جواب دیا کیا تیری نماز تجھے یہ سکھاتی ہے کہ ہم ان سارے معبودوں کوچھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے، یا یہ کہ ہمیں اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا اختیارنہ ہو، بس تو ہی ایک عالی ظرف اور راست بازآدمی رہ گیاہے؟؟؟”۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا مودودی ؒ رقم طرازہیں:” اس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زندگی کومذہبی ودنیاوی دائروں میں الگ الگ تقسیم کرنے کا تخیل آج کوئی نیا تخیل نہیں ہے، بلکہ آج سے تین ساڑھے تین ہزاربرس پہلے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کواس تقسیم پرویسا ہی اصرارتھا جیسا آج اہل مغرب اوران کے مشرقی شاگردوں کو ہے”۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کوان کی نماز پڑھنے پرکوئی اعتراض نہ تھا بلکہ اقامت صلوٰۃ کے منطقی، فطری و شرعی نتیجے میں اقامت دین کے تقاضے پروہ سیخ پا ہوجاتے تھے اوراپنے نبی علیہ السلام سے کہتے تھے تم جتنی نمازیں چاہو پڑھولیکن تمہاری نمازکو ہمارے معاملات زندگی سے کیاعلاقہ؟؟؟۔ انہوں نے سیکولرازم کی فکر کےعین مطابق خدا کو مسجد میں بند کردیا تھا اور کاروبارحیات کو اپنی من مرضی، اپنے تجربے، اپنے مفاد اور صرف دنیاوی منافع کی بنیاد پرچلانا چاہتے تھے۔ ان کی تجارت میں خشیت الہی، فکرآخرت، بنیادی انسانی اخلاقیات اورمفادعامہ کا کوئی تصورنہیں تھا ۔ قوم شعیب نے کاروبارتجارت سے خدا کو بے دخل کیا تھا اوراپنے پیش روؤں کی اتباع میں آج کے سیکولرازم نے مذہب کو ذاتی معاملہ قراردے کر پارلیمان، تھانہ، کچہری، عدالت، نظام تعلیم اورکل سماجی اداروں اوراجتماعی معاملات سے خداکو بے دخل کردیا ہے۔
حقوق کی اصطلاح کواسلام نے اپنی تعلیمات میں بکثرت استعمال کیا ہے جیسے”وَفِىٓ أَمۡوَٲلِهِمۡ حَقٌّ۬ لِّلسَّآٮِٕلِ وَٱلۡمَحۡرُومِ (زاریات١٩) ترجمہ:”اوران کے مالوں میں حق ہے سائل اورمحروم کے لیے”۔ یہ اصطلاح خالصتاً دینے کے معانی میں استعمال کی گئی ہے، یعنی حقوق کو ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ پورے قرآن و حدیث اوراسلامی کتب میں جہاں جہاں بھی حقوق کا لفظ استعمال ہوا ہےاس میں دینے کےمعانی، ادائیگی کاتصور، اہل حق تک پہنچانے کی فکراورعدم ادائیگی کے نتیجے میں وعید خداوندی کا خوف دامن گیرہے۔ والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق ، پڑوسیوں کے حقوق، غیرمسلموں کے حقوق، یتیموں، مسکینوں، غریبوں، بیواؤں اورمسافروں کے حقوق وغیرہ کا ذکرکرتے ہوئے اللہ تعالی اوراس کے دین و شریعت کا تقاضا ہے کہ ان تک ان کے حقوق پہنچائے جائیں۔ اس تصورکے برعکس حقوق مانگنے، طلب کرنے اوران پراصرارکرنے کو قرآن مجید نے سخت نا پسند کیا ہے۔” لِلۡفُقَرَآءِ ٱلَّذِينَ أُحۡصِرُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ لَا يَسۡتَطِيعُونَ ضَرۡبً۬ا فِى ٱلۡأَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ ٱلۡجَاهِلُ أَغۡنِيَآءَ مِنَ ٱلتَّعَفُّفِ تَعۡرِفُهُم بِسِيمَـٰهُمۡ لَا يَسۡـَٔلُونَ ٱلنَّاسَ إِلۡحَافً۬ا‌ۗ وَمَا تُنفِقُواْ مِنۡ خَيۡرٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ (سورۃ بقرہ٢٧٣) ترجمہ:”خاص طورپر مدد کے مستحق تووہ تنگ دست لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کے کام میں ایسے گھرگئے کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لیے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، ان کی خودداری دیکھ کرنا واقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ مگروہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ پڑ کرکچھ مانگیں، ان کی اعانت میں جوکچھ مال تم خرچ کروگے وہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔”
جب کہ سیکولرازم نے حقوق کے باب میں وصول کرنے، چھیننے، ضبط کرنے اورلینے کا کام سکھایا ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کرسیکولرازم نے سکھایا ہے کہ حقوق مانگنے سے نہیں ملتے بلکہ چھیننے سے ملتے ہیں۔ “لڑاؤ اورحکومت کرو” کے مصداق حقوق کے نام پر معاشرے میں ایک فساد برپا کردیا ہے اور ہر ہرفرد اورہر ہرطبقہ اپنے حقوق کے لیے سرگرداں ہے اوراپنے حق کی خاطر بیان بازی، مظاہرے، جلسے جلوس، ہڑتالیں، دھرنے اورجلاؤ گھیراؤ، ماردھاڑ، چھیناجھپٹی اوربدعنوانی کے سبق پڑھائے جاتے ہیں۔ خدا سے تعلق ہی دراصل انسانی باہمی رواداری، محبت، ایثاراورصلہ رحمی کا باعث بنتا ہے اورجب خدا کوصرف مسجد، مندر، کلیسا اورصومعہ وغیرہ میں بند کردیا جائے تو پھرہرانسان دوسرے کے لیے فرعون، قارون اورابوجہل بن جاتا ہے اور چاہتا ہے کل مخلوق اس کے آگے سربسجود ر ہے۔
اسلام نے فرائض کے نام پر معاشرے کے سب طبقات کوایک مقام پر جمع کردیا تھا جب کہ سیکولرازم نے حقوق کے نام پرتمام سماجی اکائیوں کوباہم دست و گریبان کردیا ہے۔ سیکولرازم نے یہاں بھی قوم شعیب کی روش کو تازہ کیا کہ اسلام کی اصطلاح کودہرے معیارکے ساتھ اپنایا اور لین دین کے پیمانے مختلف کرڈالے۔ اسلام نے نمازکے مقام پر امیرغریب، عالم، جاہل، عوام، حکمران، بڑے چھوٹے وغیرہ سب کواکٹھا کر دیا اور تسلسل و تواتر کے ساتھ نمازسے متصل زکوٰۃ کا حکم دیا تاکہ گھرسے نکلیں اورمستحقین تک ان کا حق پہنچائیں، اسی طرح روزہ، حج اورقتال سب فرائض میں کل طبقات جمع ہیں اور بالتاکید عدل اجتماعی کے ساتھ جمع ہیں۔ اس کے برعکس سیکولرازم کی پہلی سیڑھی پر ہی جب انتخابات ہوتے ہیں تو پیش کرنے والی خود ساختہ قیادت عوام کوان کے فرائض باورکرانے کی بجائے ان کے حقوق کے علمبردار اور ان کے حقوق کے محافظ اور ان کے حقوق کی خاطر لڑنے والے اور ان کے حقوق کے نگہبان بن کر آتے ہیں اور جس طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے تنبیہ کی تھی کی تمہاری یہ روش زمین میں فساد کا باعث ہوگی آج وہی نقشہ کرہ ارض پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ زمین ظلم سے بھرگئی ہے۔ پس جس طرح قوم شعیب اپنے بد ترین انجام کو پہنچی تھی اسی طرح آج کا سیکولرازم بھی پس دیوارفردا اپنے بدترین انجام کوپہچا چاہتا ہے اور بس خاورخطبہ حجۃ الوداع طلوع ہونے کو ہے، انشااللہ تعالیٰ۔

اپنی رائے ہمیں اس ای میل پر فراہم کریں
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔