سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ ضروری ہے۔

ڈاکٹر فرخ شہزاد

اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے ذریعے اپنا پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اس پیغام کے پہلے دو نقاط اول کلمہ میں بیان کئے گئے یعنی یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جب کوئی انسان ان دو حقیقتوں کا اعتراف کرتا ہے تو وہ اسلام کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان حدود میں داخل ہونے کے بعد اس پر چار بنیادی ارکان پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ ان بنیادی ارکان کے علاوہ اسلام کی حدود میں جو کچھ بھی موجود ہے اس بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں احکامات جاری کر دئیے اور رسول اکرم ﷺنے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گویا اگر کوئی اسلام کو اور اس کی حدود کو جاننا چاہتا ہے تو اسے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کرنا ہو گااس طرح اسے وہ تمام آداب زندگی معلوم ہو جائیں گے جو کہ اسلام کو مطلوب و مقصود ہیں۔
ہم نسلی مسلمان ہیں یعنی اس لئے مسلمان ہیں کہ ہم ے مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی اور یوں ہمارے ماں باپ کا دین ہمیں منتقل ہو گیا۔ اگر ہم کسی عیسائی یا ہندو گھرانے میں آنکھ کھولتے تو ہم عیسائی یا ہندو ہوتے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے اور مسلمان ملک میں رہنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اسلام کیا ہے؟ اور یہ کہ رسول اکرم ﷺ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ذریعے سے اسلام کی کیاحدود متعین کی گئی ہیں؟ ہم مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولتے ہیں اس کے بعد جوں جوں بڑے ہوتے ہیں اپنے ماں باپ، سکول و کالج کی کتابوں یا میڈیا کے ذریعے سے ہمیں اسلام کی جو معلومات ملتی ہیں ہم بس انہیں سمیٹتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم پڑھے لکھے گھرانوں میں پید اہوئے۔ جو لوگ اَن پڑھ گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور اَن پڑھ ہی رہتے ہیں ان کا اسلام یہ ہے کہ انہیں صرف کلمہ ہی پڑھنا آتا ہے اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں سوائے اس کے ان کے دائیں بائیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تھوڑا بہت وہی کچھ کر لیتے ہیں۔ ایسے بے شمار گھرانے موجود ہیں جن کے افراد کو کلمہ بھی پڑھنا نہیں آتا۔ جو لوگ نو مسلم ہیں انہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ وہ اسلام کی حقیقت جاننے کے لئے پہلے اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب ان کا اس حد تک مطالعہ ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرلیں تو اس کے بعد اسلام قبول کرکے وہ اسلام کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ہر ہر پہلوپر نظرڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ زبانی رہنمائی قرآن مجید کے مطالعہ سے حاصل کرتے ہیں جبکہ عملی رہنمائی کے لئے وہ سیرت النبی ؐ کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ رسول اکرم ﷺ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر رہبر اعظم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ نہ کے جائے تو ہم اسلام کو مکمل طریقے سے سمجھ نہیں سکتے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان رسول اکرم ﷺ کی احادیث اور سیرت کا اسی طرح مطالعہ کرے جس طرح کہ نو مسلم کرتے ہیں اور اسوۂ حسنہ کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھے۔
آج سے25سے30سال قبل تک پاکستانی تعلیمی نصاب میں سیرت النبی ؐ بارے اسباق لازمی شامل کئے جاتے تھے۔ ا س طرح طلباء کچھ حد تک سیرت النبی ؐ سے واقف ہو جاتے تھے۔جیسے جیسے نصاب تبدیل ہو تا گیا آہستہ آہستہ یہ اسباق ختم کر دیئے گئے۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نصاب میں سیرت النبی ؐ کو علیحدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اعلان پر لازمی عمل درآمد کیا جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ اُمید ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے کو پورا کرے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اَن پڑھ ہیں اور جن کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے انہیں سیرت النبی ؐ سے کس طرح آگاہ کیا جائے؟ یہ ذمہ داری مسجد کے امام کی ہے۔ اگر جمعہ کے ہر خطبہ میں آخر کے دس منٹ سیرت النبی ؐ پر بات کی جائے تو کم از کم وہ اَن پڑھ لوگ جو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں رہبر اعظم ﷺکے اسوۂ حسنہ سے آگاہ ہو سکیں گے۔ جو لوگ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے انہیں اللہ ہی کوئی راستہ دکھا سکتا ہے۔
ہماری تحریر کا حاصل یہ ہے کہ ہر مسلمان نہ صرف قرآن مجید کو ترجمہ یا تفسیر کے ساتھ پڑھے بلکہ ساتھ ساتھ احادیث اور سیرت النبی ﷺ کی جامع کتب کا مطالعہ بھی کرتا رہے تاکہ وہ اسلام سے اسی طرح آگاہ ہو سکے جس طرح کے نو مسلم ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ نسلی مسلمان کے زمرے سے باہر آسکتا ہے۔
آخر میں اس نقطے کی طرف توجہ کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں یا وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اسلام سے بالکل نابلد ہیں ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں ہر مسلمان جو دین کی سمجھ رکھتا ہے اگر اس کا واسطہ غیر مسلموں سے ہے تو اسے ان تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے اور جن لوگوں کا واسطہ دین سے نابلد مسلمانوں سے رہتا ہے تو اسے بھلے انداز میں ان لوگوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور سیر ت النبی ﷺ سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔۔
اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے ذریعے اپنا پیغام دنیا تک پہنچایا۔ اس پیغام کے پہلے دو نقاط اول کلمہ میں بیان کئے گئے یعنی یہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ جب کوئی انسان ان دو حقیقتوں کا اعتراف کرتا ہے تو وہ اسلام کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان حدود میں داخل ہونے کے بعد اس پر چار بنیادی ارکان پر عمل کرنا فرض ہو جاتا ہے یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ۔ ان بنیادی ارکان کے علاوہ اسلام کی حدود میں جو کچھ بھی موجود ہے اس بارے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں احکامات جاری کر دئیے اور رسول اکرمﷺ نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گویا اگر کوئی اسلام کو اور اس کی حدود کو جاننا چاہتا ہے تو اسے اسوۂ حسنہ کا مطالعہ کرنا ہو گااس طرح اسے وہ تمام آداب زندگی معلوم ہو جائیں گے جو کہ اسلام کو مطلوب و مقصود ہیں۔
ہم نسلی مسلمان ہیں یعنی اس لئے مسلمان ہیں کہ ہم نے مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی اور یوں ہمارے ماں باپ کا دین ہمیں منتقل ہو گیا۔ اگرہم کسی عیسائی یا ہندو گھرانے میں آنکھ کھولتے تو ہم عیسائی یا ہندو ہوتے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ مسلمان گھرانےمیں پیدا ہونے اور مسلمان ملک میں رہنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اسلام کیا ہے؟ اور یہ کہ رسول اکرم ﷺ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ذریعے سے اسلام کی کیا حدود متعین کی گئی ہیں؟ ہم مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولتے ہیں اس کے بعد جوں جوں بڑے ہوتے ہیں اپنے ماں باپ، سکول و کالج کی کتابوں یا میڈیا کے ذریعے سے ہمیں اسلام کی جو معلومات ملتی ہیں ہم بس انہیں سمیٹتے رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم پڑھے لکھے گھرانوں میں پید اہوئے۔ جو لوگ اَن پڑھ گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور اَن پڑھ ہی رہتے ہیں ان کا اسلام یہ ہے کہ انہیں صرف کلمہ ہی پڑھنا آتا ہے اس کے علاوہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں سوائے اس کے ان کے دائیں بائیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تھوڑا بہت وہی کچھ کر لیتے ہیں۔ ایسے بے شمار گھرانے موجود ہیں جن کے افراد کو کلمہ بھی پڑھنا نہیں آتا۔ جو لوگ نو مسلم ہیں انہوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ وہ اسلام کی حقیقت جاننے کے لئے پہلے اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب ان کا اس حد تک مطالعہ ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرلیں تو اس کے بعد اسلام قبول کرکے وہ اسلام کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے ہر ہر پہلوپر نظرڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ زبانی رہنمائی قرآن مجید کے مطالعہ سے حاصل کرتے ہیں جبکہ عملی رہنمائی کے لئے وہ سیرت النبیؐ کا مکمل مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ رسول اکرم ﷺ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر رہبراعظم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ نہ کیا جائے تو ہم اسلام کو مکمل طریقے سے سمجھ نہیں سکتے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ہر مسلمان رسول اکرم ﷺ کی احادیث اور سیرت کا اسی طرح مطالعہ کرے جس طرح کہ نو مسلم کرتے ہیں اور اسوۂ حسنہ کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھے۔
آج سے25سے30سال قبل تک پاکستانی تعلیمی نصاب میں سیرت النبیؐ بارے میں اسباق لازمی شامل کئے جاتے تھے۔ ا س طرح طلباء کچھ حد تک سیرت النبیؐ سے واقف ہو جاتے تھے۔ جیسے جیسے نصاب تبدیل ہو تا گیا آہستہ آہستہ یہ اسباق ختم کر دیئے گئے۔ اب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نصاب میں سیرت النبیؐ کو علیحدہ مضمون کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اعلان پر لازمی عمل درآمد کیا جائے اور اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ اُمید ہے کہ حکومت اپنے اس وعدے کو پورا کرے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اَن پڑھ ہیں اور جن کے بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے انہیں سیرت النبیؐ سے کس طرح آگاہ کیا جائے؟ یہ ذمہ داری مسجد کے امام کی ہے۔ اگر جمعہ کے ہر خطبہ میں آخر کے دس منٹ سیرت النبیؐ پر بات کی جائے تو کم از کم وہ اَن پڑھ لوگ جو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں وہ رہبر اعظم ﷺکے اسوۂ حسنہ سے آگاہ ہو سکیں گے۔ جو لوگ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتے انہیں اللہ ہی کوئی راستہ دکھا سکتا ہے۔
ہماری تحریر کا حاصل یہ ہے کہ ہر مسلمان نہ صرف قرآن مجید کو ترجمہ یا تفسیر کے ساتھ پڑھے بلکہ ساتھ ساتھ احادیث اور سیرت النبی ﷺ کی جامع کتب کا مطالعہ بھی کرتا رہے تاکہ وہ اسلام سے اسی طرح آگاہ ہو سکے جس طرح کہ نو مسلم ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ نسلی مسلمان کے زمرے سے باہر آسکتا ہے۔
آخر میں اس نقطے کی طرف توجہ کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں یا وہ جو مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اسلام سے بالکل نابلد ہیں ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ہمارے خیال میں ہر مسلمان جو دین کی سمجھ رکھتا ہے اگر اس کا واسطہ غیر مسلموں سے ہے تو اسے ان تک اسلام کا پیغام پہنچانا چاہیے اور جن لوگوں کا واسطہ دین سے نابلد مسلمانوں سے رہتا ہے تو اسے بھلے انداز میں ان لوگوں کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور سیر ت النبی ﷺ سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔