جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن (Registration of Madrasas) ان کا اولین مطالبہ ہے اور وہ ریاست سے کسی بھی قسم کے تصادم کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام مدارس کے حقوق کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں، مگر حکومت مدارس کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ مدارس کے نظام کو کنٹرول کرنے کا دباؤ بین الاقوامی اداروں، خصوصاً ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کو ان معاہدوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے جو حکومت نے ان اداروں کے ساتھ طے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2004 میں بھی مدارس سے متعلق قانون سازی ہوئی تھی، جبکہ 2019 میں ایک نیا معاہدہ کیا گیا جو محض ایک ایگزیکٹو آرڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا نے صدرِ مملکت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر قوانین پر دستخط کرسکتے ہیں تو مدارس کے متفقہ بل پر کیوں نہیں؟
مولانا فضل الرحمان نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں 2024 کے انتخابات کے دوران مسلح گروپس کی موجودگی اور مذہبی و قوم پرست قیادت کو اسمبلیوں سے باہر رکھنے کی سازش کی گئی۔
انہوں نے وفاق المدارس العربیہ کے صدر مفتی تقی عثمانی کے 17 دسمبر کو بلائے گئے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ وہ علماء کی تقسیم کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مولانا نے حکومت کو خبردار کیا کہ مدارس کے مسائل کو تنازع بنانے سے گریز کرے اور قانون کے مطابق ان کے حقوق تسلیم کرے۔
اہم نکات:
مدارس رجسٹریشن بل 2024: اہم نکات اور شقیں
20 اکتوبر 2024 کو سینیٹ میں پیش کیے گئے "سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024” کا مقصد دینی مدارس کی رجسٹریشن (Registration of Madrasas) کو قانونی دائرے میں لانا ہے۔ اس بل میں درج ذیل اہم نکات شامل ہیں:
رجسٹریشن کی لازمیت:
تعلیمی اور مالیاتی شفافیت:
نصاب میں تبدیلی:
قانونی حیثیت:
رجسٹریشن (Registration of Madrasas) کے بعد کسی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
آزادی اور استثنا:
مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے اور قرآنی و فقہی تعلیمات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
یہ بل مدارس کو باقاعدہ قانونی فریم ورک میں لانے، مالی شفافیت یقینی بنانے اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔