وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں آبی منصوبوں پر تنازع، چولستان کینال کا مستقبل داؤ پر!

وفاقی حکومت نے چولستان کینال منصوبے (Cholistan Canal Project) کی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) سے منظوری لینے کا فیصلہ تبدیل کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، کابینہ ڈویژن کو ایکنک کے منٹس میں تبدیلی کی درخواست کی گئی ہے تاکہ چولستان کینال کا ذکر حذف کیا جا سکے اور منصوبے کو سی سی آئی میں پیش کرنے سے روکا جا سکے۔

نگران دورِ حکومت میں ایکنک نے اس منصوبے کو سی سی آئی کی منظوری سے مشروط کیا تھا، تاہم وزارت منصوبہ بندی کا موقف ہے کہ چولستان کینال غلطی سے ایکنک کے منٹس میں شامل ہوا، کیونکہ فیصلہ صرف گریٹر تھل کینال سے متعلق تھا۔

سندھ حکومت نے چولستان کینال کی تعمیر پر اعتراض کرتے ہوئے اسے پانی کی دستیابی میں اضافے سے مشروط کیا ہے۔ سندھ کو خدشہ ہے کہ اس منصوبے سے اس کے پانی کے حصے میں کمی واقع ہوگی، جبکہ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ کینال کو سال میں چار ماہ سیلاب کا پانی ملے گا، جو بنجر زمین کو زرخیز بنائے گا۔

چولستان کینال منصوبے (Cholistan Canal Project) پر 211 ارب روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس سے لاکھوں ایکڑ زمین زیرِ کاشت لائی جا سکے گی۔ تاہم، سندھ حکومت نے منصوبے کی منظوری کو روکنے کے لیے ارسا کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

یہ تنازعہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت دیگر منصوبوں، جیسے کہ گریٹر تھل کینال اور چشمہ رائٹ بینک کینال کی تعمیر پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل کے بعد پانی کے ذخائر میں اضافے کو اس منصوبے کی اہمیت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن سندھ اس مؤقف سے متفق نہیں۔

یہ معاملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان شدید اختلافات کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ منصوبے کی منظوری کا حتمی فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری سے مشروط ہے۔

مزیدخبروں کے لیے ہماری ویب سائٹ ہم مارخور وزٹ کریں۔