نومنتخب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پہلا فل کورٹ اجلاس (full court meeting) اختتام پذیر ہوا، جس میں مختلف اہم امور پر تفصیلی بحث کی گئی۔ یہ اجلاس تقریباً دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں تمام دستیاب ججز نے شرکت کی، سوائے جسٹس منصور علی شاہ کے جو عمرے پر گئے ہوئے تھے, انہوں نے ویڈیولنک کے زریعے شرکت کی.
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے پیش کردہ کیس مینجمنٹ سسٹم کو ایک ماہ کے لیے نافذ کیا جائے گا۔ یہ نظام مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے اور فیصلوں میں تیزی لانے کے لیے متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اجلاس میں عدالتی اصلاحات پر بھی بات چیت کی گئی، جس میں ججز نے اپنے تحفظات اور تجربات شیئر کیے۔
فل کورٹ اجلاس (full court meeting) میں سپریم کورٹ کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ موجودہ وقت میں سپریم کورٹ میں 59,191 کیسز زیرالتوا ہیں۔ ان کیسز کے جلد فیصلے کے لیے خصوصی بنچز قائم کرنے کی تجویز دی گئی، جن میں دو اور تین رکنی بینچز شامل ہوں گے۔ یہ بینچز مخصوص مقدمات کو تیزی سے نمٹائیں گے، جس سے عدالتی نظام کی رفتار میں بہتری آئے گی۔
اجلاس کے بعد، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ججز کی پیش کردہ قیمتی تجاویز کو سراہا اور ان کے عزم کو اجاگر کیا کہ وہ مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ نے ویڈیولنک کے ذریعے مزید تجاویز بھی فراہم کیں، جن کا مقصد عدالتی کارکردگی میں ابتدائی طور پر ایک ماہ کے اندر بہتری لانا ہے۔ اس کے بعد تین اور چھ ماہ کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
اجلاس کے اختتام پر یہ بھی اعلان کیا گیا کہ فل کورٹ کا اگلا اجلاس 2 دسمبر کو منعقد ہوگا۔ چیف جسٹس نے ججز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ مل کر عدالتی نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے کام کریں گے۔
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے نئے چیف جسٹس کے حلف اٹھانے کے بعد 28 اکتوبر سے یکم نومبر تک کے لیے ججز روسٹر جاری کیا، جس کے تحت آٹھ مختلف بینچز مقدمات کی سماعت کریں گے۔ بینچز کی تشکیل میں معزز ججز کے تجربات اور مہارت کو مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ ہر مقدمے کو مناسب توجہ دی جا سکے۔ ان اقدامات کا مقصد عدالتی نظام کی شفافیت اور مؤثر کارکردگی کو یقینی بنانا ہے۔