چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اقلیتی تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں اکثریتی فیصلے (Majority decisions) پر سخت اختلاف کا اظہار کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے 14 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں اکثریتی ججز کے فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کا تدارک کریں گے۔
اہم نکات جو نوٹ میں شامل ہیں:
آئین کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ فیصلے میں آئین کی کئی خلاف ورزیاں اور کوتاہیاں سامنے آئیں، جن کا نشاندہ کرنا ان کا فرض ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اکثریتی ججز اپنی غلطیوں کو غور و فکر کے بعد درست کریں گے۔
نظرثانی درخواستوں کی عدم سماعت: انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ نظرثانی درخواستیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ساتھی ججز جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے نظرثانی کی درخواست کو سماعت کے لیے پیش کرنے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
آسان فہم آئین: چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کا آئین تحریری ہے اور آسان زبان میں ہے، اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اکثریتی ججز اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے درست کریں گے۔
آزاد امیدواروں کے معاملے پر اختلاف: اختلافی فیصلے میں کہا گیا کہ 41 امیدواروں نے خود کو آزاد امیدوار قرار دیا تھا اور سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ریکارڈ میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو ظاہر کرتی کہ ان امیدواروں پر کوئی دباؤ ڈالا گیا یا انہیں آزاد امیدوار بننے پر مجبور کیا گیا۔ اس لیے، چیف جسٹس اور جسٹس مندوخیل نے اکثریتی ججز کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی اجازت دینا آئین کے خلاف ہے۔
اکثریتی فیصلے (Majority decisions) پر تنقید: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکثریتی فیصلے کو آئینی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ججز کو ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اکثریتی فیصلے میں کیس کی بنیادی باتوں کو نظر انداز کیا گیا اور یہ افسوسناک ہے کہ اکثریتی ججز نے آئین کی پاسداری نہیں کی۔
آزاد امیدواروں کے لیے اضافی مواقع کا معاملہ: چیف جسٹس اور جسٹس مندوخیل نے اکثریتی ججز کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جس میں آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے 15 دن کا اضافی وقت دینے کی بات کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون ایسی کسی اجازت یا اضافی وقت کی اجازت نہیں دیتا۔