21 دسمبر قومی ترانے کےخالق “حفیظ جالندھری” کا یوم وفات ہے۔

پاکستان کو قومی ترانےجیسا بیش قیمتی سرمایہ نواز کر امر ہوجانے والے حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900 کو پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔

ملکی خراب حالات کے باعث وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ان کی اکیڈمک ایجوکیشن ساتویں جماعت تک ہی محدود رہی۔ اس کے باوجود انہیں خدا نے ایسی پوشیدہ صلاحیتوں سے نوازا تھا کہ صرف سات سال کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا اور پہلی غزل چھٹی جماعت میں کہی۔

ادبی تعلیم کے لیے قادر الکلام فارسی کے معروف شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی شاگردی اختیار کی ۔قیام پاکستان کے بعد لاہور تشریف لائے اور پھر آخری دم تک لاہور کو رہائش کا اعزاز بخشا ۔ ایک وقت آیا کہ افواج پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل آف مورالز اور امور کشمیر مقرر ہوئے انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ہلال امتیاز اور حسن کارکردگی کے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

حفیظ جالندھری کا ناقابل فراموش کارنامہ شاہ نامہ اسلام کا تخلیق ہونا تھا جو ادب میں ہمیشگی اختیار کر گیا حفیظ جالندھری نے کئی مشہور گیت، غزلیں اور نظمیں بھی کہیں جن میں نغمہ زار ،سوزوساز شامل ہیں۔ افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر کے نام سے چھپا ایک معلومات افزا کتاب چیونٹی نامہ بھی لکھی۔

حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

21 دسمبر 1982 کو قلیل علالت کے بعدحرکت قلب بند ہو جانے سے وہ خالق حقیقی سےجا ملے اور انہیں مینار پاکستان کے سائے تلےدفن کیا گیا۔