کیا آپ کو معلوم ہے کہ جہاں پارلیمان واقع ہے عین اِسی جگہ کِسی زمانے میں مائی اللہ رکھی کی بکریوں کا باڑا ہوتا تھا؟ 1960 کے جاڑے تک تو مائی اللہ رکھی زندہ تھی اور اُس کا باڑا موجود تھا۔ اسلام آباد کا آغاز ہُوا تو مائی اللہ رکھی بھی ہِجرتی پٙتوں کی طرح بِکھر گئی۔ بعد کی کہانی تو بابے دین محمد کو بھی معلوم نہیں کہ مائی اللہ رکھی کہاں گئی اور اُس کی بکریوں کا کیا بنا۔
پاس سے ایک کٙس بہتی تھی۔ برسات میں جب مارگلہ پر مینہ برستا تھا تو اُس میں طُغیانی آ جاتی تھی۔ اُس کے کِنارے مائی اللہ رکھی نے باڑا بنا رکھا تھا۔ باڑے میں کُچھ بکریاں، ایک آدھ گائے اور حِفاظت کے لِیے دو کُتے رکھے ہُوئے تھے۔ مائی اللہ رکھی کی رہائش ”پارلیمانی لاجز“ میں تھی۔ سیکٹر جی فائیو میں، سپریم کورٹ اور پارلیمان کے عین سامنے، ریڈ زون میں۔
یہ مائی اللہ رکھی کا گاؤں تھا۔ ہٙنستا بٙستا گاؤں۔ اِس کا نا م کٙٹاریاں تھا۔ نور پور شاہاں، موچی موہڑا، سمبال کورک، بھڑیال، مل پور، تیال، لکھوال، راول، گھگھروٹ، چٹھہ بختاور، ترامڑی ۔۔۔۔ سب گاؤں ایک مالا کی طرح کُچھ کُچھ فاصلے پر پروئے ہُوئے تھے۔کٹاریاں نام کا گاؤں اُس جگہ پر تھا جہاں پارلیمان، سُپریم کورٹ، وزیرِ اعظم آفس، وفاقی شرعی عدالت، وزارت خارجہ، سرینا ہوٹل وغیرہ قائم ہیں۔ شاہراہ سِری نگر اور اٙتا تُرک ایوینیو کے بیچ کا سارا علاقہ یوں سمجھیے کہ کٹاریاں گاؤں کا علاقہ تھا۔ اِکا دُکا مکانات اُس جانب بھی تھے جہاں اب سفارت خانے قائم ہیں۔ جی فائیو ون اور جی فائیو ٹو کٹاریاں گاؤں میں بسائے گئے۔
کُری کا قدیم مندر دیکھ کر میں اور سجاد اظہر نِکلے تو دیکھا کہ مندر کی چھت پر دو لڑکے بیٹھے ہیں۔ اُن سے پُوچھا اِس گاؤں کا سب سے بُوڑھا آدمی کون ہے۔ ایک نے کہا میرا دادا۔ پُوچھا کیا اُن سے مُلاقات ہو سکتی ہے اور یوں تھوڑی دیر بعد ہم ایک گھر کے صحن میں ایک بُزرگ کے پاس جا بیٹھے۔ عُمر پُوچھی تو کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں تاریخِ پیدائش کا تعین اندازے سے ہوتا تھا تو آپ یوں اندازہ لگا لیں کہ جب پاکستان بنا تو میری دوسری بچی پیدا ہو چُکی تھی۔ سجاد اظہر صاحب نے جمع تفریق کی اور وہیں اعلان کر دِیا کہ بابا جی سنچری کر چُکے ہیں۔
کِسی سے مِل بیٹھیں تو ہم روایتی پینڈو لوگ ایک سوال ضرور پُوچھتے ہیں کہ کیا حال چال ہے۔ سو سال کے بابا جی مُسکرائے اور کہا بس پُتر جوانی کی بے احتیاطی کی وجہ سے اب گوڈوں میں کُچھ درد ہوتا ہے اور چند ماہ سے مسجد نہیں جا پا رہا ورنہ تو میں ابھی جوان ہوں۔ بابا جی مالٹے کھا رہے تھے، دھوپ سینک رہے تھے اور اُنہیں یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ گھر آئے مہمانوں کی خدمت خاطر میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
بابا جی سے پہلی ملاقات تو قیامِ پاکستان کے حالات و واقعات سمجھتے گُذر گئی لیکن چند ماہ بعد میں پِھر اُن کے پاس جا پُہنچا۔ اب کی بار میرے ہمراہ ایک اور سوال تھا۔ سوال یہ تھا کہ اِسلام آباد سے پہلے یہاں کون کون سے گاؤں آباد تھے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کون سا سیکٹر کِس گاؤں میں آباد ہے۔ بابا جی نے سوال سُنا اور کہا: مُجھے سب یاد ہے کیونکہ جب صدر ایوب نے اِسلام آباد بسایا تو میری بیٹی کی شادی ہو چُکی تھی اور میرے کُچھ دوست اِدھر کٹاریاں میں رہتے تھے۔
بابے دین محمد سے میں نے پُوچھا کٹاریاں کہاں تھا؟ تو اُنہوں نے یوں رواں تبصرہ شُروع کر دِیا جیسے ہاتھوں کی لکیروں کو پڑھ رہے ہوں۔ کُری سے وہ شُروع ہُوئے اور مارگلہ کی چھاؤں میں پڑنے والے ایسے درجنوں گاؤں کے نام گِنتے گِنتے ٹیکسلا کے نواح تک کی اُن بٙستیوں تک جا پُہنچے جو اِسلام آباد کی نئی تہذیب کی دُھول بن کر صفحہِ ہستی سے غائب ہو چُکی تھیں۔ میرے لِیے یہ سب کُچھ کِسی حیرت کدے سے کم نہ تھا۔
بابا دین محمد نے بتایا کہ سرینا ہوٹل کے سامنے مری روڈ کے پاس ڈھوکری تھا اور ڈھوکری سے آگے ساتھ ہی کٹاریاں تھا۔ یعنی وزارتِ خارجہ کی عمارت سے لے کر پارلیمان تک، یہ ساری جگہ کٹاریاں گاؤں کی تھی۔ اِتفاق دیکھیے کہ یہیں تھوڑا آگے پی ٹی وی کے سامنے سڑک کِنارے آج بھی کُچھ قبریں موجود ہیں۔ تو کیا یہ قبریں کٹاریاں گاؤں کے لوگوں کی ہیں؟یہاں کٹاریاں گاؤں ہی کے لوگ مدفون ہیں تو باقی قبریں کہاں ہیں؟ کیا ایوان صدر کے اُس پار، آس پاس کہیں کوئی قبرستان بھی ہے؟
میں کبھی یہ سوچتا تھا کہ پُرانے وقتوں کا ایک گاؤں اِتنا بڑا کیسے ہو سکتا تھا؟ یہی سوال ذہن میں لِیے میں سی ڈی اے سے ہوتا ہُوا پاکستان آرکائیوز تک جا پُہنچا۔ 1901 کی مٙردم شُماری کے اعداد و شمار دیکھنا شُروع کِیے تو خیال آیا یہ تو بہت پُرانی بات ہو جائے گی۔ چُنانچہ 1961 کی مٙردم شُماری کا ریکارڈ چیک کرنا شُروع کر دِیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اِسلام آباد پراجیکٹ پر کام شُروع ہو چُکا تھا۔ گاؤں ایکوائر کیے جا چُکے تھے اور تعمیرات بھی شُروع ہو چُکی تھیں۔ یعنی اُس وقت کے اعداد و شُمار زیادہ حٙسبِ حال تھے۔
اِس ڈاکومنٹ کے مُطابق 1961 میں کٹاریاں گاؤں کا کُل رقبہ 1206 ایکڑ پر مُشتمل تھا۔ گاؤں میں 206 گھر تھے۔ اِس کی کُل آبادی 480 افراد پر مُشتمل تھی۔ مردوں کی تعداد 249 اور خواتین کی تعداد231 تھی۔ اِنہی خواتین میں سے ایک مائی اللہ رکھی تھی اور اِن گھروں میں سے ایک مائی اللہ رکھی کا باڑا تھا جو عین اُس جگہ تھا جہاں اب پارلیمان کی پُر شکوہ عمارت موجود ہے۔ خالد صدیقی بھی کہاں یاد آئے:
ایک اور کھیت پکی سڑک نے نِگل لِیا،
ایک اور گاؤں شہر کی وُسعت میں کھو گیا۔
مائی اللہ رکھی کی رُوح کٙبھی اپنے بکریوں کے باڑے کو دیکھنے پارلیمان میں آتی ہو گی اور وہاں سیاسی قیادت کو ایک دوسرے کے گریبانوں سے اُلجھتے اور اُچھلتے کُودتے، چیختے چِلاتے دیکھ کر سوچتی ہو گی کہ میرا گاؤں گِرا کر، میری تہذیب کے نقوش مِٹا کر، میرے پُرکھوں کو ہِجرتی کر کے اگر یہاں اِن لوگوں سے اُچھل کود ہی کرانا تھی تو اِدھر میرا بکریوں کا باڑا ہی رہنے دِیا ہوتا۔ میری بکریاں تو چیختی اور کاٹتی بھی نہیں تھیں اور دودھ بھی دیتی تھی !!!
منقول. احسن انصاری